|

وقتِ اشاعت :   June 1 – 2023

کوئٹہ: سینئر سیاست دان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ محمد علی جناح کے گھر کا افسوس کرنے والے خان آف قلات اور محمد علی جناح کے درمیان ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے کا بھی افسوس کریں، معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے سے بانی پاکستان کے دستخط کی تذلیل،ان کے قول کی توہین ہورہی ہے۔ریلیوں اور مظاہروں میں اس معاہدہ پر عملدرآمد کرانے کا بھی مطالبہ کیاجاتا۔بلوچستان کی 80 فیصد آبادی خطے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

ایسے میں صوبے کی آئندہ نسلوں کے وسیلے ریکوڈک کا سودا کرکے اس صوبے اور یہاں کے لوگوں کیساتھ ظلم کیا گیا، یہ بات انہوں نے گزشتہ روز سراوان ہاؤس کوئٹہ میں سیاسی کارکنوں و طلباء کی فکری نشست سے خطاب اور ان کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہی، نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے مزید کہاکہ ہم ایک پرامن سیاسی عمل کا حصہ ہیں ۔

جسے اسٹیبشلمنٹ نے روک کر ایک ہجوم کو تشکیل دیا ہے یہ ہجوم عوام کی خدمت نہیں کرسکتا بلکہ بعض لوگ اس بالادست استحصالی طبقے جس نے ملک کو بحرانوں میں مبتلا کئے رکھا ہے اس کی حمایت میں نکل رہے ہیں انہیں محمد علی جناح کے گھر کا تو افسوس ہے مگر خان آف قلات اور محمد علی جناح کے درمیان ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے کا افسوس نہیں، انہوں نے کہا کہ ان ریلیوں اور مظاہروں میں اس معاہدہ پر عملدرآمد کرانے کا بھی مطالبہ کیاجاتا جس پر عملدرآمد نہ ہونے سے بانی پاکستان محمد علی جناح کے دستخط کی تذلیل ہورہی ہے، انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ احتجاج کے دوران جناح ہاؤس کو نقصان پہنچا یا گیا انہیں کبھی محمد علی جناح اور خان آف قلات کے درمیان ہونیو الے معاہدہ پر بات کرتے نہیں سنا ہے، اس معاہدہ پر عملدآمدنہ ہونا بھی بانی پاکستان کے قول کی توہین ہے ان لوگوں کو اس بات پر بھی سوچناچائیے۔\

انہوں نے کہاکہ بعض لوگوں نے اپنے ذاتی مفادات اور مراعات کیلئے بڑی بڑی ریلیاں نکال کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ اس ملک کے خیر خواہ ہیں اگر یہ لوگ واقعی خیر خوا ہ ہیں اور انہیں محمد علی جناح کے گھر سے ہمدردی ہے تو پھر انہیں اس معاہدہ کیساتھ بھی وفاکرنی چائیے اور یہ مطالبہ کریں کہ بانی پاکستان اور خان قلات کے درمیان ہونے والے معاہدہ پر عملدرآمد کیا جائے اور عملدرآمد نہ کرانے والے لوگ مجرم ہیں۔

یہ لوگ بلوچستان کی پسماندگی کے ذمہ دار ہیں، انہوں نے کہاکہ سیاسی کارکن وہ رضاکارانہ سپاہی ہیں جو اپنا وقت اپنی آئندہ نسلوں کے وقار، خوشحالی کیلئے گزارتے ہیں اور انہی قوموں نے ترقی کی ہے جن کی گزشتہ نسلوں، سیاسی کارکنوں نے اپنی آئندہ نسلوں کیلئے دیانتداری، ایمانداری، اخلاص کیساتھ جدوجہد کرتے ہوئے تکالیف برداشت کرکے آگے بڑھیں، یہ قومیں دنیا کے نقشہ میں آج بہت آگے نکل گئی ہیں اور ہم آج بھی غلام کی حیثیت سے زندگی گزاررہے ہیں یہاں سیاسی جماعتیں اقتدار کے بدلے اپنے اصولی موقف سے دستبرداراور سیاسی کارکنوں کا راستہ روک کر سیاسی مخبروں، ٹھیکیداروں کو سیاست پر مسلط کرتی ہیں،کیوں کہ اگر حقیقی سیاسی کارکن پارلیمنٹ تک پہنچیں گے تو پارلیمنٹ میں صوبے کی وہ آوازبن کر بات کریں گے جس آواز کو دبانے کیلئے سیاسی جماعتوں اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان سودا کیا گیا ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ وفاق میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 16 ارکان اسمبلی اور 22 سینیٹر ز موجود ہیں ان سب کی موجودگی میں بلوچستان کہاں کھڑا ہے، صوبے کی 80 فیصد آبادی خطے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، لوگوں کے پاس مالی استطاعت نہ ہونے سے شرح ناخواندگی، غربت اور بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے گوادر میں لوگ دو گھونٹ پانی کو ترس رہے ہیں، مگر صوبے کی آئندہ نسلوں کے وسیلے ریکوڈک کا سودا کرکے بلوچستان کے لوگوں کیساتھ تاریخی ظلم کیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ 2002ء میں گوادر کے حوالے سے کوئٹہ میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرکے موجودہ حالات کی اس وقت پیش بینی کی تھی کیوں کہ ہماری جدوجہد بلوچستان کے حقوق کیلئے ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا ہدف اقتدار نہیں ہم یہ سیاسی جدوجہد اپنے قومی حقوق، اس وطن کی آئندہ نسلوں کی ترقی و خوشحالی،ناخواندگی، جہالت، استحصال،انسانی حقوق کی پامالیوں کیخلاف، بھوک افلاس، غربت اور پسماندگی کے خاتمے، اورجن کے بچے اور بھائی سالوں سے لاپتہ ہیں ان ماؤں اور بہنوں کیلئے کررہے ہیں، اس مخصوص ذہنیت کیخلاف جدوجہد کررہے ہیں جو اس قومی وطن کو تقسیم کرکے نئے ڈویژن بناکر اس وطن کے وارثوں کو کمشنر کے دروازے پر لا کھڑا کرنا چاہتے ہیں مگرہم اپنے اصولی موقف اور قومی حقوق کی جدوجہد سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔