|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2023

کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز جناب جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ اور جناب جسٹس روزی خان بڑیچ پر مشتمل بینچ نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سٹیٹ بینک سرکل(SBC) ایف آئی اے سندھ زون 1 کراچی کی جانب سے درخواست گزاروں کے اکاؤنٹس بلاک کرنے کے حکم کو غیر قانونی قرار دے دیا-

معزز عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایف آئی اے کے ارکان کو منی لانڈرنگ یا ان کے دائرہ اختیار کے کسی بھی جرم کی انکوائری و تحقیقات کے دوران بینک اکاؤنٹس منجمد کرتے وقت ایف آئی اے ایکٹ 1974 کے سیکشن 5(5) اور اینٹی منی لانڈرنگ کے سیکشنز 8 اور 9 کے تحت عدالت سے اجازت لینا ضروری ہے۔

یہ اجازت اس علاقائی دائرہ اختیار والی عدالت سے لی جائے گی جہاں جرم کا ارتکاب ہوا ہو اور بالخصوص وہ عدالت جس کے علاقے میں زیر تفتیش بینک اکاؤنٹ رکھنے والا مشکوک سرگرمی میں ملوث تھا یا منی لانڈرنگ کے جرم سے براہ راست منسلک تھا۔

معزز عدالت کے روبرو درخواست گزاروں نے اسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے زون 1 کراچی کے 10 اکتوبر 2022 کے حکم کی قانونی حیثیت و صداقت کو چیلنج کیا تھا کیونکہ اس حکم کے ذریعے انکوائری کے دوران درخواست گزاروں کے اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا گیا تھا-

انکوائری نمبر 69/ 2022 جو کہ منیر احمد اور ایاز احمد کے خلاف شروع کی گئی جس میں مبینہ طور پر ان کے ہنڈی /حوالہ اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا الزام ہے جبکہ درخواست گزاروں کے اکاؤنٹس مذکورہ ملزمان کے ساتھ کچھ کاروباری لین دین کی وجہ سے بلاک کیے گئے تھے-

معزز عدالت نے فریقین کی وکلا کو سننے اور دستیاب ریکارڈ کے جائزے کے بعد اپنے فیصلے میں کہا کہ اگرچہ ایف آئی اے ایکٹ سیکشن 5 کے سب سیکشن 5 کے تحت وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف ائی اے کے اراکین کو یہ اختیار حاصل ہے۔

وہ ایسی کوئی جائیداد جو کہ تحقیقات کا موضوع ہو اسے موقوف کرنے،منتقل کرنے یا کسی اور طرح سے تصرف میں لانے پر پابندی لگانے کے لیے تحریری طور پر حکم نامہ جاری کریں لیکن یہ اختیار انکوائری کے دوران استعمال نہیں کیا جا سکتا –

تحقیقاتی افسر صرف اس صورت میں یہ اختیار استعمال کر سکتا ہے کہ اگر وہ یہ سمجھے کہ زیر بحث جائیداد کو موقوف? منتقل کرنے یا نمٹانے کی وجہ سے تفتیش کی پیشرفت میں رکاوٹ ہو سکتی ہے اور پیشرفت میں رکاوٹ کے اپنے اس یقین کو اسے ضبط تحریر میں لانا ضروری ہوگا –

ایف آئی اے کے اراکین اپنے اختیارات کا استعمال محض انتہائی ایمرجنسی میں ہی کر سکتے ہیں جہاں وہ محسوس کرے کہ عدالت کی مداخلت سے زیر بحث جائیداد کے مالک کو یہ موقع مل سکتا ہے کہ وہ اسے ضائع کر دے- مذکورہ بالا اختیارات کے علاوہ ایف آئی اے حکام اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ(VII of 2010) کی دفعات اور سیکشن 8 کے تحت بھی اکثر افراد کے اکاؤنٹس بلاک کر دیتی ہے۔

یہ دفعات منی لانڈرنگ میں ملوث جائیداد کو ضبط کرنے کا پورا طریقہ کار فراہم کرتی ہے۔

جس میں تفتیشی افسر متعلقہ تفتیشی ایجنسی سے موصولہ رپورٹ کی بنیاد پر تحریری حکم کے ذریعے اور عدالت سے پیشگی اجازت کے ساتھ عارضی طور پر ایسی جائیداد کو ضبط کر سکتی ہے یہ بھی دیکھا گیا ہے۔

کہ ایف آئی اے کے اراکین لین دین کے معاملے پر اکثر تیسرے فریق کے اکاؤنٹس کو محض شک کی بنیاد پر بند کر دیتے ہیں اور مذکورہ فریق کو اپنی پوزیشن کی وضاحت کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا یہ امر بھی تکلیف دہ ہے۔

کہ مبینہ لین دین میں شامل رقم کی حد تک اکاؤنٹ کو منجمد کرنے کی بجائے اکاؤنٹ بلاک کر دیے جاتے ہیں۔

اور تیسرے فریق کو اس رقم سے جو مبینہ لین دین کا حصہ نہیں ہوتی استعمال کرنے سے روک دیتے ہیں –

معزز عدالت کو دوران بحث بتایا گیا کہ اے این ایف? سی ٹی ڈی? نیکٹا ?ایف بی آر, بی آر اے, نیب سی ائی اے,اینٹی کرپشن, ہوم ڈیپارٹمنٹ اور مختلف ایجنسیوں کے حکم پر اکاؤنٹس منجمد کرنا ایک عام عمل ہے اس مسئلے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2021 تا 23 20 کوئٹہ میں 507 اکاؤنٹس ایف آئی اے حکام کی جانب سے انکوائری کا نشانہ بنے اور اس وقت کوئٹہ میں 50 سے زائد بینک کام کر رہے ہیں۔

یعنی ہزاروں بینک اکاؤنٹس بند کر دیے گئے –

مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے اس طرح کے عمل کا صوبے کے اندر کاروبار اور افراد پر خاصہ منفی اثر پڑتا ہے اس سے مالیاتی لین دین میں خلل پڑا ? معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی اور مقامی کاروبار میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوئی بلوچستان کی تاجر برادری کے خدشات دور کرنے کے لیے تمام اداروں پر لازم ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بینک اکاؤنٹس کی بلاکنگ درست اور شفاف وجوہات کی بنیاد پر ہو –

بینک کھاتوں کا منجمد ہونا افراد کو بامقصد زندگی گزارنے کی ان کی اس امید سے محروم کر دیتا ہے کیونکہ یہ ان کا سب سے اہم اثاثہ (بینک کھاتوں میں نقد رقم) چھین لیتا ہے اس طرح بعض تفتیشی افسران قانونی ضابطوں کی پاسداری سے بچتے ہوئے شہریوں کے اکاؤنٹس غیر معینہ مدت کے لیے بلاک کر دیتے ہیں۔

ان افسران کو آئین پاکستان کے ارٹیکل 4, ?9 18 23 24 اور 25 میں درج شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ایف آئی اے ایکٹ 1974 کے سیکشن 5(5) میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اس طرح کا ضبطگی کا حکم عدالت کی تصدیق سے مشروط ہوگا-

وہ عدالت کہ جس کے پاس جرم کا مقدمہ چلانے کا اختیار ہے اور ایسے کیسز کس عدالت کے دائرہ کار میں آئیں گے تو سیکشن Cr.PC 177 کے تحت اسے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ ہر جرم جو کہ کسی عدالت کے مقامی حدود کے اندر ہوا ہو اس کی انکوائری وہی عدالت کرے گی۔

یعنی اگر کوئی شخص کوئٹہ میں جرم کرتا ہے اور کراچی کی پولیس اسے گرفتار کر لیتی ہے اور اس کی ایف آئی ار بھی کراچی میں درج ہوتی ہے تب بھی اس پر مقامی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا لہذا اکاؤنٹس کی منجمد ہونے کے اس کے ٹرائل و تحقیقات کے لیے عدالت کے دائرہ کار کا تعین سیکشن پانچ ایف آئی اے ایکٹ 1974 ? سیکشن 22 (1) اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 اور سیکشن 177 کوڈ اف کریمنل پروسیجر 1898 کے تحت ہی ہوگا –

معزز عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ ایف آئی اے ایک وفاقی ادارہ ہے اور اس کی شاخیں پورے ملک میں موجود ہیں اس لیے مشتبہ افراد کو ان کی رہائشگاہ کی بجائے ملک کے مختلف شہروں یا ہیڈ کوارٹرز میں بلانا مناسب نہیں ہے مرکزیت کے موجودہ اپروچ کی بجائے ایک مقامی اپروچ رکھنے سے زیادہ بہتر نتائج دیے جا سکتے ہیں۔

اور کام بھی سٹریم لائن ہو سکتے ہیں- معزز عدالت نے مذکورہ بالا وجوہات اور بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے اسسٹنٹ ڈائریکٹر (ایس بی سی) ایف آئی اے سندھ زون 1 کراچی کا مراسلہ مورخہ 10 اکتوبر 2022 اختیارات سے تجاوز اور قانوناً غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا معزز عدالت نے رجسٹرار کو حکم دیا کہ وہ اس فیصلے کی کاپی ڈی جی ایف آئی اے اور تمام ضلعی و سیشنز ججز کو اطلاع اور تعمیل کے لیے بھجوائیں۔