|

وقتِ اشاعت :   August 20 – 2023

آج20اگست ہے میرحاصل بزنجو کی تیسری برسی، وہ شخص جوزندگی کی علامت تھا خراب ترین حالات میں بھی جس کے چہرے پر مسکراہٹ سجی ہوتی تھی یقین نہیں آتا کہ وہ مرگیا میرحاصل بزنجو سے ہماری شناسائی تین دہائیوں سے زیادہ عرصے پرمشتمل ہے یہ جنرل ضیاء کے خونی مارشل لاء کا دورہے قید،کوڑے،پھانسیاں اورعقبوت خانے سیاسی کارکنوں کا مقدرہیں۔
پاکستان کی سرزمین سے افعان انقلاب کوکچلنے کے لئے طورخم کی سرحد کے دونوں طرف پشتونوں کا قتل عام ہورہا ہے ،لیکن اس خون آشام دورکے خلاف ملک میں تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی)کے نام سے ایک زبردست تحریک بھی موجود ہے،

جماعت اسلامی ،ظلم،جبراوربربریت کے اس دورمیں کھلے عام جنرل ضیاء کی حمایتی ہے اوراس کی طلباء تنظیم اسلامی جمعیت طلبا(جسے عرف عام میں جمعیت کیاجاتاہے)ملک کے تعلیمی اداروں میں بحالی جمہوریت کے لئے چلنی والی طلباء تحریک کو کچلنے کے فرائض اس تنظیم کے پاس ہیں اوریہ تنظیم جدید ترین اسلحہ سے مسلح ہے اس دورمیں کراچی یونیورسٹی اور ملک کے تمام تعلیمی اداروں کے اندرجمعیت کی غندہ گردی اپنے عروج پر ہے ترقی پسند طلباء تنظیموں کوجمعیت کی دہشت گردی کا سامنا ہے خوف اوردہشت کی اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ترقی پسند طلباء￿ تنظیموں کاایک اتحاد یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ(یوایس ایم)کے نام سے بنایاگیااوراس اتحاد کے چیئرمین میرحاصل بزنجو منتخب ہوئے(یادرہے کہ میرحاصل بزنجو اس وقت حاصل بلوچ کہلاتے تھے)ایم آر ڈی نے ملک میں مارشل لاء مخالف تمام سیاسی جماعتوں کوجوڑدیاتھاسیاسی کارکن، مزدور،کسان اورطالب علم سب اس سیاسی جدوجہد کا حصہ تھے ،میں ان دنوں نیانیا پیپلزپارٹی میں شامل ہوا تھا اورسرگرم ٹریڈ یونین کارکن تھا۔ کراچی یونیورسٹی میں میرے بچپن کے دوست عارف خان نے ڈاکٹرظفر عارف اورحاصل بلوچ سے میری ملاقات کرائی تھی۔حاصل بلوچ اپنے گروپ کے لڑکوں میں ابا کہلاتے تھے اس گروپ کا ایک دادا بھی تھا بعدمیں پتاچلا کہ دادا کا اصل نام سردار شوکت کشمیری ہے (یہ آج کل جنیوا میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں)میرحاصل بزنجو جمعیت کی غنڈہ گردی کا براہ راست شکارہوئے ان پرجامع کراچی کے اندرقاتلانہ حملہ کیاگیا جس میں وہ زخمی ہوئے،یونیورسٹی کے لڑکوں کا خیال تھا کہ حاصل بلوچ چونکہ فیوڈل پس منظر رکھتے ہیں اس لئے وہ اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے اوراپنے ساتھی قدیرعابدکی شہادت کا بدلہ لیں گے لیکن ایسانہیں ہوا،حاصل بزنجو نے طالب علموں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں اپنا سیاسی موقف بیان فرمایا۔انہوں نے کہا ہم نظریاتی لوگ ہیں اوربدلے لینے کی نہیں سماج بدلنے کی سیاست کرتے ہیں۔
میرصاحب کے زمانہ طالب علمی کے دوست جب بھی مجھے ملتے تھے انہوں نے کبھی حاصل بزنجو کی خیریت دریافت نہیں کی وہ مجھ سے پوچھتے تھے ”ابا”کا کیاحال ہے ”ابا”سے کافی دن ہوئے بات نہیں ہوئی،ارے ”ابا”نے توسینیٹ میں شاندار تقریر کی ،ہاں بھائی ایسا توصرف ”ابا” ہی بول سکتا ہے بابا،باقی کسی میں اتنی جرات کہاں،ارے ایوب بھائی ”ابا”کوکینسر ہوگیا پھر”ابا”کے زمانہ طالب علمی کے ساتھی معین قریشی نے میرحاصل بزنجو کے انتقال پر اپنے مضمون میں انہیں زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ان کے مضمون کا عنوان ہی یہ تھا ”اورآخرابامرگیا”یہ تھے وہ حاصل بلوچ اوراپنے طالب علم ساتھیوں کے ابا جن سے میری ملاقات تقریباً37برس قبل کراچی یونیورسٹی میں ہوئی تھی اورپھرمیں نے حاصل کونہیں چھوڑا وہی مجھے چھوڑ گئے اپنے جسد خاکی کوغسل دینے کا فرض بھی میرے ذمے سپرد کرگئے اور پھرایمبولینس میں کراچی سے نال تک میں تھااورحاصل تھے اور37برس پرپھیلاہوایادوں کانہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔میرحاصل بزنجو کے ساتھ میرے کئی رشتے تھے میں ان کے والد محترم میرغوث بخش بزنجو کا نظریاتی پیروکارہوں ،میرحاصل میرے دوست تھے ،میرحاصل بزنجو میرے قائد تھے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میر انتہائی نفیس ،شفیق اوربلندحوصلے کے مالک بڑے انسان تھے جنرل ضیاء کے مارشل کے خلاف بحیثیت طالب علم رہنما میرحاصل کی جدوجہد بڑے بڑے سیاسی رہنمائوں سے زیادہ ہے انہوں نے جس ذہانت اوربہادری کے ساتھ مختلف الخیال طلباء تنظیموں کے اتحاد کوجوڑے رکھا یہ ملک کی سیاسی تاریخ کا سنہرہ باب ہے۔اوریہ میرحاصل کی ذہانت ہی کا نتیجہ ہے کہ دو سیاسی جماعتوں کے انضمام سے قائم ہونے والی نیشنل پارٹی کی عمر17سال سے زیادہ ہوئی ہے میرنے 2018 ء میں پارٹی کی صدارت چھوڑ دی تھی اس دوران ان کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں تھا لیکن وہی پارٹی کے سب کچھ تھے۔میرحاصل پہلی دفعہ 1989ء میں خضدار سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے وہ دوبارہ ایوان زیریں اوردودفعہ ایوان بالا کے ممبررہے ان کی سیاست کا زمانہ نصف صدی پرمحیط ہوتاہے وہ دو دہائیوں تک پارلیمنٹرین رہے ،ان کی جماعت نیشنل پارٹی کو2013ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں وزارت اعلیٰ بھی ملی۔ وہ جب 63سال کی عمرمیں دنیا سے رخصت ہوئے توان کا دامن داغ دارنہ تھا۔ 18ویں ترمیم کی منظوری اورپھراس ترمیم کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کرنے میں حاصل بزنجو کا کردارقائدانہ ہے۔میرحاصل بزنجو ایک دانشور سیاستدان تھے وہ جتنے آمریت کے مخالف تھے اتنے ہی مہم جوئی کے بھی خلاف تھے وہ نجی محفلوں میں اورریکارڈ پربھی ایک جیسا موقف رکھتے تھے وہ کہتے تھے کہ سیاسی جماعتیں اگراس ملک کے عوام کومنظم کرنے میں کامیاب ہوجائیں توپھرکسی میں عوام کی مرضی کے خلاف حکمرانی کرنے کی جرات ہی نہیں ہوگی جنرل مشرف کے مارشل لاء کے خلاف بھی میرکی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے نومبر2007ء میں جنرل مشرف نے جب دوسری دفعہ آئین توڑا توان کے اس غیرآئینی اقدام کے خلاف 5نومبر 2007ء احتجاج کا دن مقررہوا کراچی پولیس اورایم کیوایم کی زبردست دہشت گردی کے باوجود کراچی پریس کلب پرسارا دن احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے اوروقفے وقفے سے گرفتاریاں بھی ہوتی رہیں یوسف مستی خان،فدیراعوان اورلیاقت ساہی گرفتارکرلئے گئے۔ کچھ لوگ پریس کلب کے اندرپہنچنے میں کامیاب ہوگئے شام کے وقت پریس کلب کے عہدیداروں نے میرحاصل بزنجو کوبتایا کہ پولیس کی طرف سے پیغام آیاہے کہ حاصل بزنجو پریس کلب سے باہرآجائیں اورگرفتاری دیں ورنہ پولیس پریس کلب کے اندرداخل ہوکرحاصل بزنجو کوگرفتارکرے گی میں بھی اس وقت پریس کلب کے اندرموجود تھا میرصاحب نے مجھ سے مشورہ کیا کہ صحافی مجھے کسی اورراستے سے باہر نکالنے کا بندوبست کررہے ہیں توآپ مجھے بتائیں کہ میں گرفتاری دوں یاروپوش ہوجائوں،میں نے کہامیر صاحب میرا مشورہ ہے کہ گرفتاری دے دینی چاہئے میرصاحب نے بھی گرفتاری دینے کا فیصلہ کرلیا اپنے فیصلے سے صحافیوں کوآگاہ کرکے ہم دونوں جیسے ہی پریس کلب کے گیٹ سے باہرنکلے پولیس میرصاحب کوگرفتارکرنے کے لئے لپکی اس دوران میں نے باآواز بلند نعرہ لگایا مشرف تیرے ضابطے، مگرکیا مجال کہ کسی نے نعرے کا جواب دیا ہوحالانکہ بڑے بڑے جیّد انقلابی اس وقت پریس کلب کے باہر موجود تھے جنہوں نے میربزنجو کی موت پرجھولیاں بھربھرکرمیرصاحب کے خلاف لکھا ہے۔میرصاحب کے ساتھ مجھے بھی گرفتارکرلیاگیا ہمارے اوپر جوایف آئی آر بنائی گئی اس میں ریاست کے خلاف بغاوت کرنے کی دفعہ بھی شامل تھی اس ایف ائی آر میں یوسف مستی خان، فریداعوان،اورلیاقت ساہی بھی شریک ملزمان ہیں۔تین دن بوٹ بیسن تھانے میں ریمانڈپررہنے کے بعد ہمیں پہلے کراچی سینٹرل جیل اورپھرلانڈھی جیل منتقل کردیاگیا یہاں ہم نے میرصاحب کے ساتھ ایک مہینہ گزرا اس دوران میرحاصل بزنجو کی قائدانہ صلاحیتوں کے علاوہ دیگرصلاحیتوں کا بھی ہمیں علم ہوا کہ میرصاحب کڑاہی گوشت بہت اچھابناتے وہ ایک کلو بھنڈیاں روزانہ اپنے ہاتھوں سے پکاتے اورچمچ کے ساتھ بغیرروٹی کے کھاجاتے ہم روزانہ ریڈیو سے بی بی سی کی خبریں سنتے ،تاش کھیلتے سیاست پربحث کرتے کتابیں اوراخبارات پڑھتے میرصاحب نے ڈاکٹرعاشیہ صدیقہ کی کتاب ملٹری ان کارپوریٹ جیل میں پڑھی اوراس کتاب سے وہ اس نتیجے پرپہنچے کہ جرنیل اپنی کاروباری سلطنت کی حفاظت کے لئے باربار اقتدار پرقبضہ جماتے ہیں اقتدار پرجرنیلوں کے قبضے سے ملک کے وسیع تر قومی مفاد کا کوئی تعلق نہیں میرصاحب وفاقی وزیر بھی رہے لیکن ان کے ملنگانہ اسٹائل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی وہ گورنر کے بیٹے تھے اوران کے باپ کے دادا 40سال ریاست قلات کے گورنررہے مگرہم نے کبھی ان کے منہ سے اپنی بڑائی کی بات نہیں سنی وہ میرغوث بخش بزنجو جیسے بڑے سیاستدان اورعظیم انسان کے بیٹے تھے۔لیکن سیاست میں انہوں نے اپنا مقام اپنے باپ دادا یا خاندان کے نام کواستعمال کرکے نہیں بنایا میرحاصل بزنجونے سیاست میں جومقام بنایا وہ ان کی ذاتی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔حاصل بزنجو 2018ء کے عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کوملک کی پارلیمانی تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی کہتے تھے انہوں نے عمران خان کی حکومت کوخاموش مارشل لاء کا نام دیاتھا اس حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں سب سے طاقت ورآواز میرحاصل بزنجو ہی کی تھی وہ حزب اختلاف کومتحدکرنے کی کوششوں میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے کینسر کا مریض ہونے کے باوجود انہوں نے حزب اختلاف کوایک پلیٹ فارم پرلانے کے لئے انتھک جدوجہد کی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران ہونے والی ہارس ٹریڈنگ اوربالادست قوتوں کی ریاستی معاملات میں غیرآئینی مداخلت کے خلاف ایوان بالا میں میرحاصل بزنجو کی تقریر ملک کی پارلیمانی تاریخ میں ہمیشہ یادرکھی جائے گی خاموش مارشل لاء کے زمانے میں یہ بات میرحاصل خان بزنجوہی کر سکتے تھے کہ ”ایک جان ہی توہے تولے یا خدا لے۔”
پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل جان محمدبلیدی نے مجھے ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈ دیا اورمیرے ذمہ یہ ذمے داری لگائی کہ میں میرصاحب کے تین چارانٹرویو ریکارڈ کرلوتاکہ اس سے ان کی سوانح عمری مرتب کرنے میں مددملے میں نے میرصاحب سے بہت دفعہ اس سلسلے میں وقت بھی لیا لیکن ہمیشہ ادھرادھر کی باتیں کرکے وہ وقت گزاردیتے تھے 13فروری2020کومیں انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن (آئی ایل او)کی صدسالہ تقریبات میں شرکت کے لئے اسلام آباد میں موجود تھا پروگرام ختم ہونے کے بعدمیں اورسینیٹراکرم دشتی فیڈرل لارج اسلام آباد میں میرصاحب کے گھرگئے میں نے گھما پھرا کران سے کچھ سوالات کئے توانہوں نے مجھ سے کچھ اس طرح کی باتیں کیں۔سینیٹر میرحاصل بزنجو نے اپنے متعلق مجھے یہ بتایا کہ میں سیاست کے پرخطر راستے میں نہ کبھی پلٹا ہوں اورنہ جھکا ہوں پاکستان جیسا ملک جہاں لوگوں کی فلاح وبہبود کی بات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ملک کوسیکورٹی اسٹیٹ سے فلاحی ریاست کی طرف لے جانے کی جدوجہد کررہے ہیں توپھرآپ کی سیاست کا براہ راست ٹکراؤ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہوتاہے، جبکہ ہمارے ملک کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ملک توڑنا توگوارہ کرلیتی ہے لیکن عوام کے جائز مطالبات نہیں مانتی یہاں پرطاقت کا اصل مرکز پارلیمنٹ نہیں کہیں اورہے اوریہاں ملک توڑنے والے محب وطن اورعوام کی خوشحالی کے لئے کام کرنے والے غدار اورباغی کہلاتے ہیں۔اس ملک کی پرخطر سیاست میں آنے والے اتارچڑھاؤ اورمصائب والم کے باوجود میں اپنی جدوجہد پرقائم ہوں، اس دوران میری پارٹی کے رہنماؤں، کارکنوں، میرے زمانہ طالب علمی کے ساتھیوں، ذاتی دوستوں، خاندان کے لوگوں اورعوام الناس جوکہ میری جدوجہد کوجمہوریت عدل انصاف آئین کی حکمرانی عوام کے حق حاکمیت اورپارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے کی جانے والی جدوجہد سمجھتے ہیں ان کی طرف سے مجھے بے پناہ پذیرائی حاصل رہی میں اس لحاظ سے بھی خوش قسمت انسان ہوں کہ میری سیاست اورمیرے نقطہ نظرسے اتفاق کرنے والے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں،مجھ سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں لیکن مجھ سے نفرت کسی نے بھی نہیں کی۔رہی یہ بات کہ میں اپنی سوانح عمری لکھانے میں آپ کے ساتھ تعاون نہیں کررہا تودیکھئے ایوب بھائی مجھے اپنے متعلق یہ بتانا کہ میں نے اپنی سیاسی زندگی میں یہ کیا ،وہ کیا، اچھانہیں لگتا میری سیاسی زندگی آپ اورآپ جیسے بے شمارلوگوں کے سامنے ہے اگرمیرکے حالات زندگی کا مرتب کیاجاناکوئی ضروری کام ہے تواسے آپ لوگ کیجیے۔”کیوں کہ میرے پاس توان چیزوں کے لئے اب بالکل وقت نہیں ہے۔