|

وقتِ اشاعت :   August 26 – 2023

ایک ایسے خطہ میں جہاں کچھ عناصر اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر نا صرف خاموشی اختیار کرتے ہیں بلکہ اس معاملے کودھندلانے کی کوشش بھی کرتے ہیں جیسا کہ بھارتی شہر منی پور میں مسیحی برادری کی حالتِ زارپر کیا جارہاہے۔

پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ عدم برداشت اور جنونیت کی قوتوں سے نفرت کرتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کے زبردست اور واضح علمبردار اور حامی کے طور پر سامنے آئے۔

جڑانوالہ میں انتہائی افسوسناک واقعہ کے ردعمل میں، پرتشدد ہجوم نے گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ اور عیسائیوں کی رہائش گاہوں پر حملہ کرکے تباہی مچا دی، وزیراعظم کاکڑ نے فیصلہ کن قیادت کا مظاہرہ کیا۔

منی پور، بھارت میں جہاں اقلیتوں کو ریاستی سرپرستی اور پشت پناہی میں ظلم و ستم کا سامنا ہے،

کے برعکس،وزیر اعظم کاکڑ کی جڑانوالہ کے واقعے کی ہینڈلنگ نے یہ زبردست پیغام دیا کہ پاکستانی ریاست کا انتہا پسندی اور عدم برداشت کی قوتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وزیراعظم کے اقدامات نے پاکستان کے تشدد سے متاثرہ افراد کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے اورحتیٰ کہ مشکلات میں بھی ان کی حفاظت وسلامتی کو یقینی بنانے کے غیر متزلزل عزم کو ظاہر کیا۔

اپنے قول و فعل دونوں کے ذریعے وزیراعظم کاکڑ ناصرف جڑانوالہ واقعے کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے بلکہ مسیحیوں کو دلاسا دیاکہ ان کے ساتھ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہیں ہوں گے۔

گرجا گھروں پر حملے کے بعد متعلقہ حکام کا ردعمل فوری تھا۔

پنجاب حکومت نے صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے،

پرُتشدد کارروائیوں کے پھیلا?

کو روکنے اور شورش پر قابو پانے کے لیے رینجرز، (پیرا ملٹری فورس) کو طلب کیا۔ صوبائی انتظامیہ پوری طرح چوکس رہی جبکہ آئی جی پی نے امن و امان کی بحالی اور اقلیتی برادریوں کے تحفظ کے لیے ایلیٹ فورس سمیت مختلف یونٹوں سے 3000 پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کی۔

وزیراعظم کاکڑ کی ہدایت پر حکام نے تیزی سے مکمل تحقیقات شروع کردیں، جس کے نتیجے میں ہنگامہ آرائی کے محض ایک دن بعد افسوس ناک واقعہ میں ملوث کم از کم 160 افراد کو گرفتار کرلیاگیا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے فوری کارروائی ایک واضح پیغام تھا کہ تشدد اور عدم برداشت کی ایسی کارروائیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

وزیر اعظم نے ذاتی طور پر جڑانوالہ کا دورہ کیا تاکہ ایک بلند اور زیادہ واضح پیغام دیا جائے کہ ریاست متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے۔

جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے قوم کے ایسے مشترکہ اصولوں پر زور دیا جو نبی پاکﷺ کی تعلیمات اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی اقدار پر مبنی ہیں۔وزیر اعظم کاکڑ نے اقلیتوں پر ظلم و ستم کی واشگاف الفاظ میں شدید مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ ایسی گھنا?نی حرکتیں کرنے والوں کے خلاف قانون کی حکمرانی ہو گی۔

انہوں نے واضح طور پر کہا کہ حکومت اور معاشرہ بڑے پیمانے پر تاریکی کی قوتوں کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہوں گے اور ضرورت مندوں کی بھرپور مدد کریں گے۔

ا نہوں نے پرعزم الفاظ میں کہا کہ زبانی کلامی دعووں کی بجائے ہمارے عملی اقدامات زیادہ بلند بولیں گے۔

وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کا متاثرہ علاقوں کا دورہ اور متاثرین کے اہل خانہ سے ان کی بات چیت نہ صرف ایک سیاسی فر یضہ بلکہ متاثرہ فریق کے لیے انصاف اور ان کی بحالی کو یقینی بنانے کے حقیقی عزم کا ثبوت ہے۔

جڑانوالہ کے واقعے نے انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے ایک گہرے سماجی مسئلے کو واضح طور پراجاگر کیا جو مذہبی اور فرقہ وارانہ حدود سے بالاتر ہے۔

وزیراعظم کاکڑ کی جانب سے اس حقیقت کے ادراک نے اس طرح کے رویے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایسے جامع حل کی ضرورت پر زور دیا جس کی جڑیں رویہ کی پیچیدہ حرکیات کی گہری سوجھ بوجھ میں پو شیدہ ہیں۔

گزشتہ روز وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آئندہ ہفتے بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔

یہ اقدام ان بنیادی مسائل کو حل کرنے اور بقائے باہمی اور افہام و تفہیم کے ماحول کو فروغ دینے کے لیے نگران حکومت کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔

مختلف مذہبی رہنما?ں، علما اور نمائندوں کو اکٹھا کرکے،

کانفرنس کا مقصد نہ صرف تشدد کی کارروائیوں کی مذمت کرنا ہے بلکہ کھلے مکالمے، باہمی احترام اور مشترکہ انسانیت کی پہچان کو بھی فروغ دینا ہے۔

جڑانوالہ کے واقعہ کے بعد، یہ کانفرنس بحالی کی طرف ایک ٹھوس ا قدام اوربرداشت و اتحاد کے نظریات تقسیم اور نفرت کی قوتوں پر غالب ہو نیکو یقینی بنانے کے طور پر کام کر ے گی۔