|

وقتِ اشاعت :   January 30 – 2024

بلوچستان میں سیاسی منظر نامہ بہت مختلف ہوگیا ہے،

خاص کر قوم پرست جماعتوں کا اپنے حلقوں سے ووٹ حاصل کرنا مشکل ترہوتاجارہا ہے جس کی بڑی وجہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کامسئلہ ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا جو بلوچستان سے ریلی کی صورت میں اسلام آباد پہنچا تھا۔ وہاں انہوں نے اپنے مطالبات سامنے رکھے

اور ایک بااثر کمیٹی تشکیل دینے کے ساتھ مسئلے کا مستقل حل اور اس کے نتائج نکلتے ہوئے دکھانا تھا۔

ماضی کی کمیٹیوں سے یکسر جدا ایک ایسی کمیٹی کی تشکیل کی شرط رکھی گئی جو بلوچستان کے لاپتہ افراد کے مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے مگر اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی دھرنے کے مطالبات پورے نہیں ہوئے ۔طویل دھرنے کے بعد ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں اسلام آباد سے دھرنا ختم کردیا گیا اور بلوچستان آنے کافیصلہ کیا گیا۔ بلوچستان میں اب تک بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جتنے جلوس ہوئے ہیں

ان میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ہے، یہ غم وغصہ گزشتہ کئی سالوں سے بلوچستان کے عوام میںپایاجاتا ہے خاص کر لاپتہ افراد کے مسئلے کاحل لواحقین سمیت عوام کی ایک بڑی تعداد چاہتی ہے کہ بلوچستان سے ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرکے معاملات کو آگے بڑھایاجائے ۔

یہ پہلی بار نہیں ہورہا ، اس سے قبل بھی بلوچستان میں احتجاجی مظاہرے، جلسے جلوس، ریلیاں نکالی گئیں ہیں مگر اس بار جوخواتین اس تمام احتجاجی عمل کی قیادت کررہی ہیں وہ خود متاثرین میں شامل ہیں۔ جبکہ اس تمام دورانیہ میں قوم پرست جماعتوں کے قائدین مکمل طور پر غائب رہے

حالانکہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں انتخابات بلوچستان کے انہی مسائل کے حل کے نعروں کے ساتھ لڑتی ہیں اورعوامی اجتماعات سمیت مختلف فورمز پر بلوچ قوم پرست قیادت یہ بات کرتی ہے کہ بلوچستان کے لاپتہ افراد سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم اور اسلام آباد بلوچستان کے درمیان فاصلوں کو ختم کرنے کے لیے اس کا حل ضروری ہے۔مختلف ادوار میں حکومتیں قوم پرست جماعتوں کے حصوں میں آئیں ،صوبے اوروفاق میں اتحادی بھی رہے

مگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی حالیہ احتجاج کے دوران بلوچ قوم پرست قائدین اور ان کے کارکنان کو احتجاج میں نہیں دیکھاگیا ،نہ بلوچستان میں منعقدہ جلوس اور مظاہروں میں وہ شریک ہوئے اور نہ ہی اسلام آباد دھرنے میں شریک ہوکر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ۔اب ماہ رنگ بلوچ نے جلسوں کے دوران اپنے خطاب میں یہ کہہ دیا ہے کہ لاپتہ افراد کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کا بلوچ قوم ساتھ نہ دے۔

اس غم وغصہ کی بنیادی وجہ قوم پرست جماعتوں کابلوچ یک جہتی کمیٹی کے ساتھ براہ راست شامل نہ ہونا اور مؤثر انداز میں ان کے احتجاج کی آواز نہیں بننا ہے۔ اب بلوچ قوم پرست جماعتیں جب اپنے حلقوںمیں ووٹ کے لیے جائینگی تو اس میں لاپتہ افراد سمیت دیگر مسائل پر بات کرینگی مگر کیا وہ اتنی ہی بااثر ثابت ہوگی کیونکہ جو زمینی حقائق اس وقت بلوچستان کے دکھائی دے رہے ہیں اس میں ایسا ماحول بنتا نہیں دکھ رہا ۔

ووٹ بینک پر برا اثر پڑے گا، ووٹ ڈالنے کی شرح بھی شاید ماضی کی نسبت کم ہو ۔اگر بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے موجودہ مسائل کے حوالے سے ابھی سے اپنی کوششیں تیز نہ کیں اور اپنے تمام چینلز کو بروئے کارلاتے ہوئے مسئلے کو بات چیت کی طرف نہ لے گئے

تو ایک بڑانقصان قوم پرستوں کو سیاسی حوالے سے ہوگا ۔ بہرحال مسئلے کا حل بات چیت سے ہی ممکن ہے اور پارلیمان ایک مؤثر پلیٹ فارم ہے جہاں سے بلوچستان کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے مگر اس کے لیے صرف قوم پرست نہیں بلکہ تمام بڑی سیاسی جماعتوںکو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ عوام کا سیاسی اور پارلیمانی نظام پر اعتباربڑھے۔