|

وقتِ اشاعت :   March 12 – 2024

گوادر بلوچی زبان کے دو الفاظ “گوات اور دَر” سے بنا ہے، جس کے معنی ’’ہوا کا دروازہ” ہے۔ تاہم آج نہ “در” رہ گیا ہے اور نہ ہی وہ “گوات” رہ گئی ہے۔ سارے دروازے بند کردیئے گئے ہیں۔

نام نہاد ترقی کے نام پر قدرتی برساتی نالوں پر بڑی بڑی تعمیرات کرکے بارش کے پانی کا راستہ روک دیا گیا ہے جس کے باعث حالیہ بارشوں کے پانی نے گوادر کی شہری آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پورے کا پورا شہر پانی میں ڈوب گیا۔ بارشوں کا سیلابی ریلہ بجائے سمندر میں جانے کے گوادر کی پرانی آبادی میں داخل ہوگیا۔ فروری 2024 کے آخری ہفتے سے شروع ہونے والی بارش سے ملابند، فقیر کالونی سمیت شہر کے دیگر علاقے بری طرح متاثر ہوئے۔ ویسے تو پورے بلوچستان میں بارشیں ہوئیں تاہم گوادر شہر سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ گوادر کا ذکر اس لئے ضرورری ہے کیونکہ یہاں ترقی کے بڑے بڑے دعوے کئے گئے۔ گوادر کو دبئی اور سنگاپور سے جوڑا گیا۔

بے شک یہاں ترقی ہوئی تاہم وہ ترقی ” انڈیجینس لوگوں” کے لئے نہیں تھی بلکہ یہ ترقی یہاں کے مقامی افراد کے لئے ایک تباہی کاباعث بنی۔ یہ تباہی “نیچرل ڈیزاسٹر” نہیں بلکہ “ہیومن میڈ” تباہی تھی یعنی حکومت اور ان کے اداروں کی غلط پلاننگ کا نتیجہ تھا۔اگر ہم اس غلط پلاننگ کو “درست” پلاننگ بھی کہہ دیں تو یہ بھی غلط نہیں ہوگا کیونکہ یہاں ایک اور شہر بسایا گیاہے۔ وہ شہر “سرکار” اور ان کے “گماشتوں” کے لئے بنایا گیا ہے۔ گوادر کی ترقی کے نام پر جو تعمیرات کی گئیں دراصل یہ ترقی “نوآباد کاروں” کے لئے تھی۔ جو حالیہ گوادر کے سیلاب کا سبب بنا۔ چینی سامراج اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں کو دی جانے والی “ترقی” سیلابی ریلے کی شکل میں سامنے آگئی۔ جس نے گوادر کی قدیم آبادی کو ڈبو دیا۔ ان کا مقصد لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کرنا تھا تاکہ مقامی افراد اپنے گھروں کو خالی کرنے پر مجبور ہوجائیں اور ان کے خالی ہونیوالے گھروں کو “رئیل اسٹیٹ” ایجنٹس کے ذریعے خریدا جاسکے۔ اور وہاں بڑی بڑی “ہاؤسنگ اسکیمز” تعمیر کی جاسکیں۔ 2020 کو چینی سامراج کے کہنے پر اسلام آباد کی سرکار نے گوادر کی پوری آبادی کو ایک “پنجرے” میں بند کرنے کا بھی منصوبہ بنایا تھا۔ وہ منصوبہ ایک “سب جیل” کی مانند تھا جو گوادر کی پوری آبادی کو چاروں طرف سے گھیرنے کی حکمت عملی تھی اور اس پر کام کا آغاز بھی ہوا تاہم عوامی رد عمل کی وجہ سے سرکاری منصوبہ “ملیا میٹ” ہوگیا اور سرکار کو “منہ کی کھانی” پڑی۔ وہ سرکاری پلان کچھ یوں تھا۔
دسمبر 2020 کو شہر گوادر میں “سیف سٹی” منصوبے کے تحت باڑ لگانے کا کام شروع کیا گیا۔ پشْکان سے لیکر کوسٹل ہائی وے گوادرجیونی زیرو پوائنٹ تک شہر کو مکمل باڑلگا کر سیل کرنا تھا۔ جو “مڑانی” سے ہوتے ہوئے “وشیں ڈور” تک کوسٹل ہائی وے گوادر “جیونی زیرو پوائنٹ” تک مکمل کرنا تھا۔ باڑ کی تعمیر کے کیلئے گوادرشہر میں داخلے کیلئے دو انٹری پوائنٹس قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس منصوبے سے گوادرکے لوگ ایک پنجرے میں بند ہوجاتے اور ایک گھٹن کا ماحول پیدا ہوتا جس کا مقصد انسانی ٓآزادی اورنقل وحرکت کو محدود کرنا تھا۔
پسنی سے تعلق رکھنے والے بلوچ شاعر اور قلم کار، انور صاحب خان کو ہم سے جدا ہوئے چند سال کا عرصہ بیت چکا ہے انہوں نے اپنی تحریروں اور شاعری میں گودار کے بارے میں جو پیش گوئیاں کی تھیں وہ آج درست ثابت ہورہی ہیں۔ انہوں نے گوادر کے مستقبل کی کچھ یوں منظرکشی کی ہے۔
‘‘شبنمی شام سمندر کے کنارے جاکر
خوف کے سائے میں گوادر کا نظارہ کرلوں
کیا پتہ کل یہاں آتے ہوئے ویزہ نہ لگے
کیا پتہ شہر میرا مجھ ہی سے انجان ہوجائے”
میں (راقم) جب بھی پسنی کا دورہ کرتا تو میری ملاقات انور صاحب خان سے ضرور ہوتی تھی۔ ان کی تحریریں اور شاعری آج بھی ہمارے دلوں میں نقش ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں گوادر جانے کے لیے ہمیں چائینز قونصلیٹ سے ویزہ لگانا پڑے گا۔ ان کو اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ گوادر کی ترقی مقامی افراد کے لئے نہیں ہے۔ انور صاحب خان کی شاعری اور تحریروں کی وجہ سے ان کے ساتھ جو کیا گیا وہ پوری دنیا کے سامنے ایک کھلی کتاب ہے۔ وہ اپنی بے عزتی کو برداشت نہ کرسکے اور ہم سے جدا ہوگئے۔ “انور جان!” آج بھی آپ بلوچ قوم کے دلوں میں زندہ ہیں کیونکہ شاعر اور قلم کار کو ان کا “لٹریچر” تاحیات زندہ رکھتا ہے وہ اپنے قلم اور شاعری کے ذریعے قوموں کو راستہ دکھاتے ہیں۔
گوادر شہر میں باڑ لگانے کا منصوبہ پورے شہر کو “مسنگ” کئے جانے کا منصوبہ تھا اس سے قبل بلوچستان سے سیاسی ورکرز “مسنگ” ہوتے تھے۔اب پورے شہر کے شہر “مسنگ” کرنے کا ارادہ تھا۔حالانکہ پنجاب کے سرحدی ایریا میں واقع شہروں کو باڑ لگانے کی ضرورت ہے۔ جن میں نارووال، سیالکوٹ، لاہور، قصور، اوکاڑہ، پاکپتن، بہاولنگر، بہاولپور سمیت دیگر سرحدی شہر شامل ہیں۔ جہاں شہری آبادی پر سرحد پار فائرنگ ہوتی رہتی ہے۔ “سیف سٹی” منصوبے کی مذکورہ شہروں کو اشد ضرورت ہے۔ گوادر شہر کو اس کی ضرورت نہیںہے۔
” انڈیجینس لوگوں” کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تو وہاں نوآبادیاتی ریاستوں نے ان کو صرف بندوق سے قتل نہیں کیا بلکہ ان کی نسل کشی کیلئے مقامی افراد کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کے مختلف طریقے آزمائے اور مقامی لوگوں کو ذہنی غلام بنانے کی کوشش کی گئی تاکہ پوری کی پوری قوم کو ذہنی طور پر قید میں رکھا جاسکے۔ غلام اور آقا کا رشتہ تاحیات جاری رہے۔ اسلام آباد اور بیجنگ کے آقاؤں کی بد قسمتی ہے کہ انہیں بلوچ جیسی باشعور قوم سے واسطہ پڑا ہے جنہیں ذہنی غلام بنانا ممکن نہیں ہے۔بلوچ قوم کی بیٹیوں اور بزرگوں نے گوادر کے عوام کو لاوارث نہیں چھوڑا۔ پوری بلوچ سرزمین سے بلوچوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب سے متاثرین کی مدد کی اور اس سلسلے میں امدادی کیمپس لگائے گئے ان امدادی کمیپس کو کام کرنے سے روکنے کی کوشش بھی کی گئی۔ حب اور گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے امدادی کیمپوں کو رات کے اندھیرے میں انتظامیہ اور پولیس اکھاڑ کر لے گئی تاہم ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، واجہ صبغت اللہ بلوچ، وسیم سفر زامرانی نے اپنی ہمت اور جرات سے حکومتی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا اور اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس صورتحال میں میرے (راقم) پیارے دوست اور گوادر سے نومنتخب رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ عوامی اجتماعات کی جگہ سرکاری تقریبات میں صرف دو دفعہ نظر آئے۔ اس طرح ان کا عوام کے درمیان “گمشدہ ہونا” میرے لئے باعثِ پریشانی ہے۔ ظاہر ہے مولانا صاحب میرے اچھے دوست ہیں۔ ان کی تلاش کے لئے مجھے “روزنامہ آزادی” کوئٹہ میں “تلاش گمشدہ” کا اشتہار دینا پڑے گا۔