|

وقتِ اشاعت :   March 28 – 2024

کوئٹہ:بلوچستان اسمبلی کے سابق اسپیکر اور جمعیت علماء اسلام کے مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی بے بسی پر مبنی فریاد کی المناک داستان سپریم جوڈیشل کونسل کے معزز اراکین کے نام بذریعہ خط کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دی

ا یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں عملاً عدلیہ آزاد نہیں ہے اسٹیبلشمنٹ کا بزور قوت و جبر عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ (اسلام آباد ہائیکورٹ) کے کل 8 ججز میں سے 6 ججز کا احتجاج پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہے سب نے ملکر اجتماعی آواز اٹھائی ہے اس لئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز ججز خراج تحسین کے مستحق ہیں۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ بلحاظ عہدہ سپریم جودیشل کونسل کے بھی صدر ہیں 27 مارچ کو خط کے موضوع پر انہوں نے سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس کی صدارت کی جس میں معزز عدالت عظمیٰ پاکستان کے تمام ججز شریک ہوئے میٹنگ دو گھنٹہ سے زائد جاری رہی لیکن بے نتیجہ رہی 28 مارچ کو دوبارہ فل کورٹ اجلاس ہوگا ان حالات میں عدالت عظمیٰ پاکستان کا فرض ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کیلئے فوری اقدام اٹھائے اگر اسلام آباد کی عدالت عالیہ کے چھ ججز کی فریاد پر فوری کارروائی کی بجائے لیت و لعل سے کام لیا گیا

تو پاکستان کے 25 کروڑ عوام کا عدلیہ اور عدالتی نظام سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ جائے گا پاکستانی عوام ظلم اور جبر کی چکی میں پستے رہیں گے اس لئے فوری طور پر مکمل انکوائری اور تحقیق کیلئے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ از خود نوٹس (سوموٹو) لے اور سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل دے روزانہ کی بنیاد پر سماعت جاری رکھی جائے اور عدلیہ کی آزادی پر حملہ آور ہونے کے تمام کرداروں کے خلاف مقدمات درج کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔