|

وقتِ اشاعت :   April 14 – 2024

عید الفطر کے فوری بعد پی ٹی آئی اوردیگر اپوزیشن جماعتیں احتجاجی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔پی ٹی آئی نے اپوزیشن جماعتوں سے ملکر اتحاد تشکیل دیدیا ہے۔ پی ٹی آئی بغیر حکومت کے ہر وقت سڑکوں پر رہی ہے ایک طویل عرصے سے یہ جماعت اپنی عمر سے زیادہ احتجاج کرتی آرہی ہے کوئی ایک ایسی مثال موجود نہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی قیادت میں ملک میں موجود سیاسی و معاشی بحران کے حوالے سے اصلاحات میں اپنا کردار ادا کرتی ہوئی دکھائی دی ہو۔

ایک بار حکومت حصہ میں آئی تو اس دوران بھی ماسوائے سیاسی انتقامی کارروائیوں کے کوئی بھی کام ملک کے وسیع تر مفاد میں نہیںکیا۔ خیبرپختونخواہ کی حکومت طویل عرصے سے پی ٹی آئی کے پاس ہے، کوئی ایک منصوبہ بھی اپنے دور میں مثال کے طور پر پیش نہیں کرتی جبکہ وفاق میں بھی حکومت جب بنائی تو مکمل طور پر ان کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہی جبکہ عدلیہ کی جانب سے ریلیف بھی دھڑا دھڑ ملتی رہی مگر اپنی خامیوں کو سازش کا نام دیکر سیاسی شہید بننے کی کوشش کی ۔اس بار پی ٹی آئی نے اپوزیشن جماعتوں سے ملکر نئی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے 6 جماعتی اپوزیشن اتحاد بنالیا ہے اور حکومت کے خلاف تحریک کا اعلان کر دیا ہے۔ملک کی 6 اپوزیشن جماعتوں نے آئین کی بالادستی کیلئے ’’ تحریک تحفظ آئین‘‘ کے نام سے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔اپوزیشن اتحاد میں پاکستان تحریک انصاف، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، جماعت اسلامی ،بلوچستان نیشنل پارٹی ،سنی تحریک اور مجلس وحدت مسلمین شامل ہے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی تحریک کے صدر نامزد کردیے گئے ہیں،

اتحاد میں شامل جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کوآرڈینشن کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔گزشتہ روز کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں 6 جماعتی اپوزیشن اتحاد کے اجلا س کے بعد نیو ز کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری عمر ایوب خان کا کہنا تھا کہ 6 جماعتوں کی لیڈر شپ موجود ہے ، ہمارا اتحاد بننے جارہا ہے ، ہم فارم 47کی بنی حکومت کو رد کرتے ہیں۔پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری عمر ایوب خان کا کہناتھا کہ 13 اپریل کو پشین اور چمن میں دو جلسے کیے جائیں گے۔عمر ایوب نے کہا کہ جہاں قانون کی پاسداری نہیں ہوتی وہاں خوشحالی نہیں ہوتی ، اس لیے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کانام ’’تحریک تحفظ آئین ‘‘رکھا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ محمود خان اچکزئی تحریک کے صدر ہوں گے، ہم جلسوں کے ساتھ ساتھ بار ایسوسی ایشن اور یونیورسٹیز کے نوجوانوں سے میٹنگ کریں گے۔عمر ایوب نے کہا کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ،بجلی کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں ،محنت کش کیلئے گھر کا چولہا چلانا مشکل ہوگیا ہے ، ہم اس محنت کش کیلئے تحریک چلارہے ہیں۔ بہرحال خیبرپختونخواہ سمیت دیگر حلقوں سے پی ٹی آئی نے بغیر نشان کے نشستیں حاصل کیں وہ کون سے فارم والے ہیں؟ حالانکہ ن لیگ کی اہم شخصیات کو اپنے حلقوں سے شکست ہوئی اور یہ غیر متوقع تھی مگر اس کے باوجود بھی ن لیگ والے ایک آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنا مدعا رکھ رہے ہیں

،ان کے بھی اعتراضات ہیں مگر کسی بھی دور میں ملک کی بڑی جماعتوں نے نئی حکومت کے خلاف فوری محاذ نہیں کھولا اور وہ بھی اس وقت جب ملک معاشی اور سیاسی حوالے مسائل کا شکار ہے۔ تقاضہ تو یہی ہے کہ موجودہ بحرانات سے نکلنے کیلئے پارلیمنٹ کے اندر اپنا کردار ادا کریں مگر ایک غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش جمہوریہ رویہ نہیں چونکہ پارلیمنٹ میں ایک اچھی خاصی پوزیشن پی ٹی آئی کی ہے جبکہ خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت بھی ہے توجو توانائی وہاں صرف ہونی چاہئے وہاں پر توجہ نہیں دی جارہی ، سڑکوں پر نکلنے کا مقصد نئی حکومت کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں خاص کر بی این پی اور پشتون خواہ کے متعلق بانی پی ٹی آئی اور ان کے لیڈران کا جو رویہ تھا وہ تاریخ کا حصہ ہے کہ وہ کن القابات سے انہیں نوازتے رہے ہیں ۔اس وقت پی ٹی آئی اپنے مقاصد کی خاطر اپوزیشن کو استعمال کرنا چاہتی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن خاص کر بی این پی کے ساتھ جن نکات پر سردار اختر مینگل کی رہائش گاہ پر معاہدہ ہوا تھا کیا پی ٹی آئی نے ان میں سے کسی بھی نکتہ پر اپنا وعدہ وفا کیا؟ اس سوال کا جواب بی این پی دے سکتی ہے جبکہ محمود خان اچکزئی کے حوالے سے جو زبان بانی پی ٹی آئی والوں نے استعمال کی ،اس پر کبھی ندامت کا اظہار کیا؟ بہرحال سیاسی جماعتوں کو آئینی و قانونی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی تحریک چلائیں مگر اس کے نتائج کیا برآمد ہونگے؟ پی ٹی آئی کی تاریخ رہی ہے کہ اس جماعت نے اپنے لاڈلوں کو دیوار سے لگایا، ایک پیجپر جب تک تھے تو نظام بہترین چل رہا تھا جب اقتدار ہاتھ سے نکل گیا تو کبھی اسے اندرونی تو کبھی بیرونی سازش قرار دیا۔

پی ٹی آئی اپنے مقاصد کیلئے کسی کو بھی استعمال کرکے یوٹرن لینے کی تاریخ رکھتی ہے تو خدشہ یہی ہے کہ اپنا کام نکل جانے کے بعد اپوزیشن سے ہاتھ نہ کرے۔ اگر پی ٹی آئی کو الیکشن اور حکومت پر اعتراض ہے تو کے پی میں حکومت کیوں بنائی؟ یہی کے پی حکومت کی مشینری ہر وقت پی ٹی آئی کیلئے احتجاجوں کے حوالے سے استعمال ہوتی رہی ہے۔ اب بلوچستان کے عوام کی محرومی و پسماندگی کو استعمال کرکے ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی جائے گی مگر وقت کے ساتھ پلٹ کر نہ دیکھنے کی پی ٹی آئی کی تاریخ سامنے ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *