|

وقتِ اشاعت :   April 16 – 2024

کوئٹہ:وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے کہاہے کہ نوشکی میں بلوچ نے پنجابی کو نہیں مارا بلکہ دہشتگرد نے پاکستانیوں کو شہید کیاہے ،بلوچستان میں دہشتگردی پر پوری قوم تقسیم ہیں اچھے وبرے طالبان کی طرح بلوچستان میں بھی اچھے وبرے دہشتگردوں کی سوچ موجود ہیں ،نیشنل ایکشن پلان میں بلوچستان میں تشدد کو الگ کردیاگیاہے جو پوری پاکستانی قوم کیلئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے

،ہمارے خلاف تین محاذ وں بندوق، بیانیہ اور پرو پاکستانی سیاسی و قبائلی لیڈر شپ کو ختم کرنے پر کام چل رہاہے ،بندوق کااستعمال ،پارلیمان ،سڑکوں یا جلسوں میں ریاست کے خلاف ماحول بنانے و پرو پاکستانی لیڈر شپ کومتنازعہ بنایاجارہاہے ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔

میرسرفراز احمد بگٹی نے کہاکہ عوام کا تحفظ ہمارا فرض ہے نوشکی میں قتل ہونے والے شہداء کے اہل خانہ سے تعزیت کرتاہوں یہ کسی بلوچ نے کسی پنجابی کو نہیں مارا بلکہ دہشتگردوں نے پاکستانیوں کو شہید کیاہے دہشتگردوں کا کوئی قوم نہیں ہوتا،دہشتگرد دہشتگرد ہے اور اس کانشانہ پاکستان اور اس کی عوام ہے دہشتگردی بلوچستان میں ہو یا خیبر پشتونخوا میں بدقسمتی ہماری ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی پر پوری قوم تقسیم ہیں ہمارا سب سے اہم دستاویز آئین پاکستان ہے اور اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان ودیگر اہم دستاویزات ہیں ہم نے نیشنل ایکشن پلان میں بلوچستان میں تشدد کو الگ کردیاکہ یہ کسی اور قسم کا وائلنس ہیں ،یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے پاکستانی قوم کیلئے یہ سوچنے کیلئے پارلیمنٹ کو سوچنے کیلئے تشدد ایک جیسا ہوتاہے جس طرح ہم پہلے اچھے اور برے طالبان کرتے رہے ہیں

اس کی سزا آج ہم بھگت رہے ہیں اسی طرح آج ہم اچھے وبرے تشدد کی سزا بھگتیںگے ،انہوں نے کہاکہ معاملہ کہاں خراب ہے آج تک کسی بڑے اینکر کہاں ہو کہ ناراض طالبان بدقسمتی سے کل کے ڈان کا اداریہ پڑھے پاکستان کاایک بڑا ادارہ قائداعظم محمد علی جناح نے بنیاد رکھی اس میں کہتے ہیں اگر فوجی ،ایف سی ،لیویز کو مارانا جائز ہے یہ مائنڈ سیٹ رہا تو ہم مسئلے کو کیسے ایڈریس کریںگے یہ کہنا کہ بلوچستان میں سب ٹھیک ہے بلوچستان میں سب ٹھیک نہیں ہے بلوچستان میں انسرجنسی ہے اور اس انسرجنس میں تین محاذ ہمارے خلاف کھولے گئے ہیں ایک بندوق کبھی یہاں کبھی وہاں اسٹرائیک کرتاہے کبھی کامیاب تو کبھی ناکام ہوتے ہیں ،دوسرا محاذ بیانیہ کاہے کوئی قبول کرے کوئی نہ کرے بشیر زیب مجید بریگیڈ کا سربراہ ہے وہ تو پریس کانفرنس نہیں کرسکتا نہ ہی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرسکتاہے وہ تو وائلنٹ ہے

اس کو بیانیہ چاہیے پاکستان کے پارلیمنٹ میں سڑکوں پر ،جلسوں پر تاکہ اس کیلئے ان کے لئے پروپیگنڈہ کرے اور وہ انسرجنٹس کی بھرتیاں جاری رکھیں ،انہوں نے کہاکہ ایک شخص دہشتگرد جو مارا جاتاہے کنفرم نہیں ہوتا یا پھر ایسے لوگ مارے جاتے ہیں جس طرح تربت میں بالاچ بلوچ مارا گیا کیا کہرام مچایاگیا پورے پاکستان میں 9لوگ مارے گئے کیا کسی طرح کا کہرام مچایاگیا ،14پاکستانی فوج کے جوان گوادر ہائی پر زندہ جلا دئیے گئے اس پر کسی جماعت یا قوم پرست نے ایک احتجاج کیا قومی اسمبلی میں بات کی صوبائی اسمبلی میں بات کی ،یہ وہ آوازیں ہیں ریاست کو نشانہ بناناہوں ریاستی اداروں کو نشانہ بنانا ہوں لاپتہ افراد کامسئلہ ہو وہاں آواز بڑی تیز ہوجاتی ہے یہاں آپ کی آواز خاموش یا تو آپ تشدد کی مذمت کرتے تشدد کی اجازت تو ریاست کے پاس ہیں ہم کہتے ہیں

کہ ایک طرف کے واقعات پر ایک ماحول پیدا کرکے ریاست کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے ،انہوں نے کہاکہ پنجاب ایک ارب روپے خرچ کرکے بلوچستان کے بچوں کو پڑھاتاہے مجھے تو خوش ہونا چاہیے لیکن میرا بچہ وہاں جاکر جو نوجوان ہے ان پر اتنا کام کیاگیاہے کہ وہاں پڑھنے کے باوجود وہاں کے لوگوں سے نفرت کرتاہے ،وہاں بلوچ کونسل بن جاتاہے وہاں پر پشتون کونسل بن جاتاہے ،دیکھا دیکھی ہم تقسیم میں چلے جاتے ہیں جو پاکستان کی بڑی فالٹ لائن ہے اور تیسرا محاذ پاکستان کی آواز بننے والے سیاسی اورقبائلی لیڈرشپ کو ختم کیاجائے

،ان کواتنامتازعہ کیاجائے کہ ان کی حیثیت صفر ہوجائے ،اس طرح کا ماحول ہیں کہ میرے جیسے لوگوں کی سیاسی کیئریئر ختم ہورہی ہے ہمارا بیانیہ مشہور نہیں ہے ،انہوں نے کہاکہ گرائونڈ پر کہناکہ ریاست کمزور ہے تو ریاست بلکل کمزور نہیں ہے بلوچستان میں علیحدگی پسند یا دہشتگرد کسی صورت ریاست کو کمزور نہیں کرسکتا، حقیقت سب کو پتہ ہوناچاہیے ہم طاقت ور ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *