|

وقتِ اشاعت :   September 25 – 2020

کوئٹہ: بلوچستان کے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے، اس کے لئے تمام جمہوریت پسند جماعتوں، قوتوں اور سیاسی کارکنوں کو کردار ادا کرنا چاہے،صوبوں کے مضبوط ہونے سے فیڈریشن مضبوط ہوگی،حقیقی فیڈریشن کے لئے سینیٹ کو اختیارات دیئے جائیں۔ ملک میں نیشن ایک نصاب کا نعرہ لگایا جارہا ہے جو آئین کے خلاف ہے صوبوں کو اختیار ہے کہ وہ اپنا نصاب خود بنائیں۔ عوام کی بالادستی چاہتے ہیں قومی مفادات کسی دوسرے ملک کے مفادات کے لئے لڑنا نہیں ہے۔

یہ بات سابق وزیراعلیٰ و نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، بی این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری و سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی،پشتونخوامیپ کے صوبائی صدر و سینیٹرعثمان کاکڑ،عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر و پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی،جمعیت علماء اسلام کے مرکزی ترجمان حافظ حسین احمد، بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی و سابق سینیٹر سعیداحمد ہاشمی،پاکستان مسلم لیگ بلوچستان کے صدر جعفر خان مندوخیل،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین و صوبائی مشیر کھیل عبدالخالق ہزارہ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی،پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدرحاجی علی مدد جتک۔

جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے مولانا عبدالقادر لونی، جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی،پاکستان نیشنل پارٹی عوامی کے سیکرٹری جنرل آصف بلوچ،سینئر صحافی انورساجدیپی ٹی آئی کے صوبائی صدر ڈاکٹر منیر بلوچ،پاکستان مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری نصیر خان اچکزئی نے کوئٹہ پریس کلب کی گولڈن جوبلی تقریبات کی مناسبت سے ”18ویں ترمیم کی اہمیت اور ضرورت‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان و نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم پر کسی صورت بھی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔

اس کے لئے تمام جمہوری پسند جماعتوں، قوتوں اور سیاسی کارکنوں کو کردار ادا کرنا چاہے،انہوں نے کہا کہ قائداعظم کی وفات کے بعد ملک کے جاگیرداروں، سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے سازشیں کرکے ملک کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جو قائد اعظم کے نظریاتی کیخلاف تھا ملک بننے کے بعد 1956میں پہلا آئین بنا اس سے قبل 9سال تک انڈین ایکٹ کے تحت ملک چلایا گیا،انہوں نے کہا کہ آخر کار 73 کاآئین بنی اور اس کے خلاف بھی سازشیں رہی جس کے بعد 2008میں اٹھارویں آئینی ترمیم کی گئی جس میں ہم نے جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں انتہائی مشکل سے پشتونوں کو ان کا نام دلایا۔

اٹھارویں آئینی ترمیم میں ہے کہ جو بھی آئین توڑے گا یا اسے معطل کرے گا وہ غدار تصور ہوگا اور اس کی سز ا پھانسی ہوگی۔ ترمیم میں فری کریمنل ٹرائل اور 35Aجیسے آرٹیکل شامل ہیں 11فیصد تک کابینہ کو کم کیا اور 4اقلیتوں کی نشستیں سینٹ میں بنائی کنکرنٹ لسٹ ختم کی گئی،انہوں نے کہا کہ اب ایک نیشن ایک نصاب کا نعرہ لگایا جارہا ہے جو آئین کے خلاف ہے صوبوں کو اختیار ہے کہ وہ اپنا نصاب خود بنائیں ایک نصاب بنایا جائے گا تو اس میں ہماری قومی زبانیں شامل نہیں کی جاسکتیں ہے ہماری قومی زبانیں پہلے سے ہی معدوم ہورہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم پر کسی صورت بھی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے اس کے لئے تمام جمہوری پسند جماعتوں، قوتوں اور سیاسی کارکنوں کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ 18ویں ترمیم کے بعدمحکموں کا بوجھ تو صوبوں کو دیا گیا لیکن آج تک بلوچستان کو کوئی اثاثہ نہیں ملا الٹا ہم نے 7ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز اور پانچ ہزار اساتذہ کو مستقل کرکے صوبے پر10ارب روپے کا بوجھ ڈالا۔انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر بلدیاتی نظام کو بھی اختیارات منتقل ہونے چاہئے 18ویں ترمیم سے جو فوائد صوبے کو ملنے چاہئے تھے اگرچہ وہ نہیں ملے۔

لیکن ہم پھر بھی اس ترمیم کے ساتھ ہیں اور اسکے خلاف کی جانے والی سازش اور این ایف سی میں اپنے حصے کو کم کرنے کی بھر پور مخالفت کریں گے۔ بی این پی کے مرکزی سیکریٹری جنر ل سینیٹرڈاکٹرجہانزیب جمالدینی نے کہاکہ اٹھارویں ترمیم کوتشکیل دیتے وقت ہماری جماعت کو اعتمادمیں نہیں لیاگیااس کے باجودیہ ایک اچھی ابتداء تھی تاکہ صوبو ں کواختیارات مل سکیں انہوں نے کہا کہ صوبوں کی مضبوطی سے فیڈریشن مضبوط ہوگی تاہم کچھ لوگوں کی کوشش ہے کہ تمام چیزیں فیڈریشن کے کنٹرول میں ہوں کیونکہ انکامزاج آج بھی تبدیل نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ این ایف سی میں کے تحت بلوچستان کو رقبے کے لحاظ سے ملنے والے والی رقم سے بلوچستان کو محروم رکھا جارہا ہے تاکہ چھوٹے صوبے کے لوگوں کو محکوم رکھاجاسکے، انہوں نے کہا کہ وسائل پردسترس نہ دینے سے نفرتوں میں اضافہ ہوگاسیندک کی مد میں صوبے کا جودوفیصدریونیوہے وہ بھی بلوچستان کو نہیں دیاگیا۔انہوں نے کہا کہ سترسالوں سے یہ کہاجاتاہے کہ قبائلی سردارصوبے کی ترقی کے مخالف ہیں سوائے چند ایک سردارکے باقی تمام حکومت کیساتھ رہے ہیں وہ پھر کیسے ترقی مخالف ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والے سریاب روڈکووسعت دینے کی بجائے۔

دوسری جگہوں پر پیسے کا ضائع ہے انہوں نے کہا کہ ہماری نالائقی ہے کہ ہم اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو منتقل ہونے والے اداروں کے اختیارات نہیں لے سکے جبکہ باقی صوبے یہ اختیارات حاصل کرچکے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کاموقف واضح ہے کہ کسی صورت اٹھارویں ترمیم کو رول بیک نہیں ہونے دینگے۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رہنماء سینیٹرعثمان خان کاکڑنے کہا کہ سی پیک منصوبہ ہماری زمینوں پر قبضے کرنے کامنصوبہ ہے یہ کوئی گیم چینجرنہیں یہ وقت ثابت کریگاانہوں نے کہاکہ صوبے کی ملکیت بلوچ پشتون عوام کی ہے۔

کسی مائننگ کمپنی کو قبول نہیں کرینگے انہوں نے کہا کہ سینیٹ اورقومی اسمبلی میں صوبائی نشستوں میں اضافے کی حکمران جماعتوں نے مخالفت کی ہمیں قومی یکجہتی کادرس کوئی نہ دے قراردادمقاصدسے روگردانی کرنیوالوں سے توقع نہ رکھی جائے ون یونٹ کانعرہ اسٹیبلشمنٹ کاتھا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ دارپنجاب کی سیاسی جماعتیں ہیں۔ پشتون بلوچ اقوام غلام ابن غلام نہیں بن سکتے۔ حقیقی فیڈریشن اور صوبائی خودمختاری کی بات تمام پارٹیوں کو مل کرکرنی ہوگی جن اکابرین نے جمہوریت اور 73کے آئین کے لئے جدوجہد کی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور شہادتیں نوش کیں انہیں یاد نہ کرنا ظلم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ 73کے آئین کے بعض آرٹیکلز کے ساتھ روز اول سے اختلاف تھا ہے اور رہے گا آج بھی کہتے ہیں اٹھارویں آئینی ترمیم طرز پر مزید ترامیم ہونی چاہیے اس کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جس کا پچھلی حکومت کے دور میں ہم نے سینیٹ میں مطالبہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ تمام پشتونوں کا ایک ہی فیڈریٹنگ یونٹ میں شامل کرکے اسے پشتونخوا، افغانیہ اور پشتونستان کا نام دیا جائے اسی طرح بلوچ، سندھیوں، سرائیکی اور پنجابیوں کو الگ الگ فیڈریٹنگ یونٹس بنانے چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی فیڈریشن کے لئے سینیٹ کو اختیارات دینے ہوں گے۔

بلکہ سینٹرز کو براہ راست ووٹوں سے انتخابات چاہتے ہیں اور سینٹ کے ذریعے ہی چیف آف آرمی سٹاف، چیف جسٹس آف پاکستان، چیف الیکشن کمیشن منتخب کیا جانا چاہیے ایسے فیڈریشن چاہتے ہیں۔ موجودہ وفاقی حکومت کو ایک ایجنڈے کے تحت لایا گیا ہے جنہیں پارلیمنٹ کی بے توقیری، قوموں کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کو غلط رنگ دے کر اس کی آڑ میں متبادل ناموں سے مختلف وزارتیں بنائیں گئی جو اٹھارویں ترمیم کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ڈوگرجج قابل قبول جبکہ قاضی فائز عیسیٰ قبول نہیں کیا جارہا ہے۔

جس کی وجہ سانحہ 8اگست کے کیس اور فیض آباد دھرنے کے فیصلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم عوام کی بالادستی چاہتے ہیں قومی مفادات کسی دوسرے ملک کے مفادات کے لئے لڑنا نہیں ہے۔ حکومت کو 12مئی کے واقعہ کا حساب دینا ہوگا آج 11مئی کے واقعہ میں ملوث لوگ حکومت کے اتحادی ہیں ے۔ حقیقی لیڈر شپ ہی مسائل حل کرسکتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد حقوق او رجمہوریت کی بالادستی کی بات کرنے پر ہمارے اکابرین کو غدار جیسے القابات سے نواز جاتا رہا تاہم اٹھارویں آئینی ترمیم سے ایک حد تک صوبوں کو اٹارنی مل اور این ایف سی ایوارڈ کی مد میں حصہ ملا۔

جس کے بعد یہ امید ہوچلی تھی کہ مزید اس طرح کی ترامیم کی جائیں گی مگر اب اٹھارویں آئینی ترمیم کے رول بیک کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ملک کی 95فیصد سیاسی پارٹیاں اور عوام اٹھارویں آئینی ترمیم کے حق میں ہیں اور مزید اس طرح کی ترامیم چاہتی ہیں۔ برسراقتدار پارٹی کو یہ شکایت ہے کہ مذکورہ ترمیم پر ڈبیٹ نہیں ہوئی ہے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آئین میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے وقت آج کی برسراقتدار پارٹی کے اکثر ممبران پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی میں نہیں تھے بلکہ انہوں نے خود اس کے پاس ہونے میں میں بھر پور کردار ادا کیا۔

مذکورہ ترمیم کے لئے سیاسی پارٹیوں نے 9مہینے تک کام کیا اور اس پر کھل کر بات ہوئی اور ملک سے 5ہزار تک رائے آئی۔ معاملات تب صحیح ہوں گے جب وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کا راستہ روکا جائیں آج ایک پارٹی میں ہے تو کل کسی اور پارٹی میں ہوں گے۔ انہوں نے عوام کے حقوق کے خلاف جو بھی بل یا قانون سازی کی جائے گی اے این پی اس کی ہر صورت میں مخالفت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کوباباحیدرزمان کے ذریعے متنازع بنانے کی کوشش کی گئی اورکراچی وکے پی کے میں خون بھی بہایاگیا تاہم آصف علی زرداری اوران کے اتحادی جماعتوں نے بہادری سے کسی حد تک قوموں کے حقوق کاتحفظ کرنے کی کوشش کی۔

ان کے بعد کی حکومتوں نے صوبوں کو ملنے والے اختیارات وفاق کو منتقل کرنے کی کوششیں کیں انہوں نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کورول بیک کرنے کی کوشش کی گئی تو بلوچستان کی سیاسی قیادت فرنٹ لائن پر کھڑی ہوکر اس کی مخالفت کرے گی۔جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے پر کیچڑ انہیں اچھالنا چاہیے آج تمام پارٹیاں حقوق کی بات کررہی ہیں۔ محمود خان اچکزئی، اختر مینگل، مولانا فضل الرحمن، ڈاکٹر مالک بلوچ سب پارلیمنٹ کے ذریعے جمہوری طریقے سے حقوق حاصل کرنے کی بات کررہے ہیں۔

جبکہ ناانصافیوں کی وجہ سے لوگ پہاڑوں پر بھی چلے گئے ہیں مگر جو بھی پارلیمنٹ کے اندر اور جمہوری طریقے حقوق حاصل کرنے کی بات کرتا ہے اور حالات کو سنوارنا چاہتے ہیں تو انہیں دیوار سے لگایا جاتا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں اور جمہوری پسند شخصیات سمیت ہر سیاسی سوچ رکھنے والے فرد نے اپنی بساط کے مطابق حقوق حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ہم حالات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر حالات کو بگاڑ نے کی آگ پر پانی ڈالنے کی بجائے اس پر مزید پٹرول چھڑکایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک تاثر دیا جارہا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم سے بلدیاتی نظام کو نقصان پہنچے گا جو غلط ہے۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے سیاسی پارٹیوں نے مرکز سے حقوق چھین کر صوبوں کو منتقل کئے اب صوبوں سے یہ نچلی سطح تک منتقل ہونے چاہئیں۔ بلوچستان کے وسائل پر سب سے پہلا حق اسی صوبے کا ہے۔ آج تمام پارٹیوں کو طے کرنا چاہیے کہ بلوچستان کے حقوق کے لئے سب کو اپنی نظریات اور اختلافات بالائے طاق رکھ کر جدوجہد کرنی ہوگی ایسے وقت میں جب تمام پارٹیاں ایک پیج پر ہے۔

ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا صحیح نہیں بلکہ اس سے بگاڑ آئے گا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی رہنماء سابق سینیٹرسعید احمد ہاشمی نے کہا کہ اگرہم اپنا موازنہ 1970کی دہائی سے کریں توآج ہم زیادہ کمزورہوئے ہیں یااسٹیبلشمنٹ زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اداروں کی مداخلت کرنے کی بات ہوتی ہے ان اداروں میں ایک ادارہ پارلیمنٹ بھی ہے پھر کیاوجہ سے کہ ہم اس کو مضبوط نہیں کرپائے اس میں سب سے بڑی کمزوری ہماری اپنی ہے ہمیں کبھی پارلیمان کو مضبوط کرنے کاخیال نہیں آیا۔انہوں نے کہاآج ججزاورفوج کااحتساب ان کے اپنے ادارے کرتے ہیں۔

یہ قانون پارلیمان نے ہی بنایاہے اوراپنا تماشابنارکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق انتخابات کراناچاہتے تھے تاہم اس وقت اسے سیاسی قیادت نے ہی موخرکرایاانہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں میرٹ پرنمائندوں کاانتخاب کریں جب سیاسی جماعتوں میں میرٹ ہوگاتوہی میرٹ پر منتخب ہوکرنمائندے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اے کابل جب صوبائی اسمبلی اورکابینہ سے منظورکرایاگیا تووہاں پر موجودکسی بھی نمائندے نے اس کو پڑھا تک نہیں جسکاخمیازہ آج کچلاک سے شعبان تک لوگ بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب تک سیاسی جماعتیں خودمضبوط نہیں ہونگی ہم کسی کامقابلہ نہیں کرسکیں گے۔پاکستان مسلم لیگ (ق)کے صوبائی صدرشیخ جعفرمندوخیل نے کہا کہ ایک فون کال پہ ممبران کو حاضر کراکے 18ویں آئین میں ترمیم کرائے جانے کے امکانات موجودہیں 1973کے آئین کے بعد اگرکوئی اہم دستایزات بنی ہے تووہ اٹھارویں آئین کی ہے انہوں نے کہا کہ ہم اس ملک کے باسی ہیں۔

سیاسی وجمہوری پارٹی کیساتھ سب پراس کی حفاظت فرض ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اورآصف علی زرداری سمیت اٹھارویں آئینی ترمیم بنانے والے کمیٹی ممبران سب اس دستاویزکوبنانے پر مبارکبادکے مستحق ہیں جمہوریت کی بحالی اورون یونٹ کے خاتمے میں چھوٹے صوبوں نے اہم کرداراداکیاتھا خدشہ ہے اٹھارویں آئینی ترمیم کے چھوٹے نکات میں ترمیم کی آڑمیں پورے آئین میں ترمیم کیاجارہاہے انہوں نے کہا کہ باچاخان،خان شہیداورنواب غوث بخش بزنجوکی طرزپرآئین کیلئے جدوجہد ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرجہانزیب جمالدینی اورعثمان خان کاکڑکی طرزپرایوان بالامیں بھجوائے گئے دوسرے آوازنہیں اٹھاسکتے بلوچستان میں پہلے منصوبوں میں پچیس فیصدکمیشن لینے کی باتیں ہوتی تھیں اب پینسٹھ فیصدکمیشن کی باتیں ہورہی ہیں ماضی میں ہمیں جمہوری طریقے سے چلنے دیاجاتاتوبنگال ہم سے الگ نہیں ہوتا۔ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیرمین و صوبائی مشیر برائے کھیل وثقافت عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ ہم تو موجودہ حکومت سے خوش ہیں کیونکہ سابق حکومتوں کے ادوار میں ہماری برادری کے لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر مارا جاتا تھا۔

میں سوال کرتا ہوں کہ میرا بیٹا اغوا ہوا تو صوبائی وزیر داخلہ اسمبلی فلورپرکہتا ہے کہ صوبے میں سترگینگ موجودہیں۔ماضی میں بجٹ سے ایک دن پہلے پی ایس ڈی پی میں اسکیمات ڈلے جاتے تھے مگر اب ایسا نہیں دعوے سے کہتا ہوں کہ میرے محکمے میں دوسال کے دوران کوئی بے قاعدگی نہیں ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم ختم نہیں ہونے جارہی اگر یہ ترمیم ختم بھی ہوگی تو اس میں بڑی جماعتوں کا ہاتھ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جدوجہد صرف مراعات کیلئے نہیں ہونی چاہئے اٹھارویں ترمیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتالیکن بلدیاتی نظام کو مضبوط نہیں کیا گیا۔

اٹھارویں ترمیم کے ثمرات اگر عوام تک نہیں پہنچیں گے تو اس کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں گی۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ لاہور کے منٹو پارک میں پاس ہونے والے قرار داد میں کہا گیا کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد وہاں کی ریاستیں اور علاقے فیڈریشن کا حصہ ہونگے 1947میں پاکستان بنا مگر 1970تک ملک کو بغیر کسی آئین کے چلا یا گیا۔

انہوں نے کہا کہ لندن میں ہونے والے ایم آر ڈی کی اجلاس میں شامل جماعتوں نے چارٹر آف ڈیمو کریسی کا اعلان کیا گیا اور 1973کے آئین کو اس کے حاصل میں بحال کرنے کا فیصلہ ہوا۔ انہوں نے کہاکہ2008کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے پسپا ہونے والے حکومت میں میاں رضا ربانی کی سربرائی میں پارلیمانی ارکین نے اٹھارویں ترمیم کو تشکیل دیا اور جس دن 18ویں تر میم پر دستخط ہورہے تھے اس دن کرکٹر کی شادی کی تقریب کی کوریج کی جارہی تھی۔ انہوں نے کہاکہ ملک کو چلانے کا واحد راستہ آئین پر عملدرآمد ہے۔

ڈنڈے کے زرو ر پر ملک کو نہیں چلا یا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ہونے والے سیمینار میں شامل سیاسی جماعتوں نے صو بائی و قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ ایم این اے اور نمائندے میں فرق ہے سینیٹ میں جب 18ویں آئینی ترمیم پر ڈاکا ڈالا جارہا تھا تو وہاں موجود اکثر سینیٹر خاموش تھے کیونکہ یہ لوگ بلوچستان کے نمائندے نہیں۔پیپلزپارٹی کے صوبائی صدرحاجی علی مددجتک نے کہا کہ ملک کی جمہوری قوتوں نے ملکر1973میں آئین بنایامگر1977میں ایک مرتبہ پھر اس کی خلاف ورزی کی گئی اس دوران شہیدبینظیربھٹو کی دومرتبہ حکومت آئی تاہم آمریت کے پیداواروں نے انہیں کام نہیں کرنے دیا۔

مگر آصف علی زراری نے ملک اوربلوچستان کی سیاسی محرومیوں کودیکھتے ہوئے جمہوریت پسند جماعتوں کیساتھ ملکر2008میں اٹھارویں آئینی ترمیم لائے مگرشروعدن سے ہی اس کیخلاف سازشیں ہوتی رہیں اوراب موجودہ سلیکٹڈحکمران اسے ختم کرنے کے درپے ہیں جواس ملک اورعوام کیساتھ مذاق کے مترادف ہے انہوں نے کہا کہ راتوں رات ایسی پارٹی بنائی گئی اورصوبے پر مسلط کی گئی جنہیں قانون اورصوبے کے حالات کاپتہ ہی نہیں 2008میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت آئی توصوبے کے ملازمین کو تنخواہیں دینے کیلئے ہمارے پاس پیسے نہیں تھے ہم آصف علی زرداری کے پاس گئے۔

توانہوں نے این ایف سی ایوارڈ کی مد میں اتنی رقم دی کہ آج کے نااہل حکمرانوں سے وہ لیپس ہوکر واپس وفاق کے پاس چلی جاتی ہے۔ پاکستان نیشنل پارٹی ے جنرل سیکریٹری آصف بلوچ نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کوئی احسان نہیں اس میں مزیدبہتری لانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں بہت سے ایسے موضوع ہیں جنہیں ایڈریس نہیں کیاگیا انہوں نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کیساتھ عرصے سے زیادتی ہورہی ہے۔

ملک کے فیصلے سیاستدانوں کو کرنے دیئے جائیں اٹھارویں ترمیم کو مزید وسعت دیکر اختیارات صوبوں کو منتقل کئے جائیں۔جمعیت نظریاتی کے نائب امیر مولانا عبدالقادر لونی نے کہا کہ موجود ہ و سابق حکومتوں سے مطمئن نہیں ہوں،ان حکومتوں نے بلوچستان کو اس کے حقوق نہیں دیئے،اٹھاریں ترمیم میں صوبے کے حقوق کا دفاع ہے این ایف سی ایوارڈ سے صوبے کو زیادہ حقوق ملے ہیں اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کی مخالفت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ شہیدصحافیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ اٹھاریں آئینی ترمیم چھوٹے صوبوں کیلئے ایک تحفہ تھا مگرآج بھی چھوٹے صوبے اپنے حقوق سے محروم ہیں بلوچستان کیساتھ ہمیشہ سے ناانصافیاں ہوتی رہی ہیں قومی اسمبلی میں بلوچستان کے صرف 16جنرل اورمجموعی طورپر20جبکہ دیگرصوبوں کے 70سے 150تک نشستیں ہیں انہوں نے کہا اٹھارویں آئینی ترمیم کو کسی صورت رول بیک نہیں ہونے دیں گے۔ جماعت اسلامی کے صوبائی امرمولانا عبدالحق ہاشمی نے کہا کہ پچاس سال کے دوران جو صحافی شہید،زخمی اورمعذورہوئے ہیں۔

یاجنہوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں ان کیلئے دعاگوہوں انہوں نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کو بہت پہلے منظورہوناچاہئے تھا تاہم دیرآیدد درست آیدطویل عرصے بعد آئین میں اچھی ترمیم ہوئی ملک میں آمروں کے تسلسل کیخلاف ترمیم لائی گئی بعض نکات پر اختلاف کے باوجود جماعت اسلامی نے ترمیم کا بھرپورساتھ دیا۔

جس نے آمروں کو جھکنے پر مجبور کیامگراٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد کرپشن میں کمی نہیں بلکہ مزید اضافہ ہواتعلیم صحت سمیت دیگر ادارے تباہی کے دھانے پر پہنچ گئے ہیں اٹھارویں آئینی ترمیم کوئی آسمانی صحیفہ نہیں کہ جس میں ترمیم نہ کی جاسکے انسانوں کابنایاگیا قانون ہے جہاں بھی بہتری کی گنجائش ہواورعوام اس پر متفق ہو تواس میں ترمیم ہوسکتی ہے ہمیں دشمنی نفرت سے خود کو بچاکر عوام کی ترقی وخوشحالی کیلئے کرداراداکرناہوگا۔سینئرصحافی وایڈیٹرزکونسل کے سربراہ انورساجدی نے کہا کہ موجودہ حکومت کا رویہ جمہوری نہیں ہے۔

صحافت پر عائدسنسرشپ کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی صحافیوں کی حالت سیاستدانوں سے زیادہ بری ہے انہوں نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ ملاقاتیں کرکے اے پی سی میں پھرانہیں چیلنج کیاجاتا ہے انہوں نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کو ختم کرکے ملک میں صدارتی نظام لانے کی کوشش کی گئی تو یہ ملک کیلئے اچھانہیں ہوگاانہوں نے کہاکہ جنہوں نے ملک کودولخت کیا ان کی بجائے ذوالقفار بھٹو،خان غفار خان،ولی خان اوربات نہ ماننے پر ڈاکٹرعبدالمالک کوغدارکہا جاتاہے انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کو چھیڑانہ جائے صوبوں کو خودمختاربنانے کیلئے انہیں وسائل فراہم کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو ساؤتھ اورنارتھ کے نام سے دوحصوں میں تقسیم کیاگیا ہے پارلیمانی اکابرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان سے متعلق ایوانوں میں آوازاٹھائیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل سے روگردانی 55فیصدملک کے عوام کی توہین ہے۔تحریک انصاف کے صوبائی صدرڈاکٹرمنیر بلوچ نے کہا کہ تحریک انصاف اٹھارویں ترمیم کو ختم نہیں کررہی بلکہ کچھ اصلاحات لائی جارہی ہیں۔

اٹھارویں ترمیم کے تحت ججزکی تعیناتی سے متعلق پہلے ہی ترمیم ہوچکی ہے انہوں نے کہا کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کیلئے اٹھارویں ترمیم میں اصلاحات لائی جائیں گی اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعداقدامات اٹھائے جائیں گے انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت اورتعلیم کے محکمے میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا 58-2B پربھی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے عملدرآمدکیاجائیگا۔

مسلم لیگ ن کے رہنماء نصیرخان نے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی قیادت کی کردارکشی کیلئے ان پر بے بنیادکیسزبنائے جارہے ہیں جسے مزیدبرداشت نہیں کیاجاسکتاانہوں نے سیاسی قیادت کو متحدہونے کو ناگزیرقراردیتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کو رول بی نہیں ہونے دینگے۔