|

وقتِ اشاعت :   December 25 – 2020

کراچی: کراچی میں بی ایس او کے سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی ٹورنٹو میں مبینہ قتل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر آج کے احتجاج میں خواتین کی بڑی تعداد شریک تھی، جبکہ کراچی کے مختلف علاقوں سے بلوچ، پشتون اور سندھی سیاسی کارکنوں کے علاوہ انسانی حقوق کمیشن کے نمائندوں طلباء و طالبات بھی بڑی تعداد میں شریک تھے۔

احتجاج میں شامل خواتین اور بچوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر بلوچی، انگلش اور اردو زبان میں کریمہ بلوچ کے لیے انصاف کے نعرے درج تھے۔مظاہرے سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ماما قدیر بلوچ، بی این پی کے مرکزی رہنماء واجہ جہانزیب بلوچ، یوسف مستی خان، وہاب بلوچ، بی ایس او کے مرکزی رہنماء اشرف بلوچ۔

لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی مہلب بلوچ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کریمہ بلوچ قتل کو حادثہ یا طبی قرار دینا درست نہیں ہے، بلوچ اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے صاف و شفاف طریقے سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

مقررین نے کہا کہ کریمہ مزاحمت کی علامت ہے، نظریے مرتے نہیں بلکہ وہ ہماری رہنمائی کرتی رہیگی۔ مقررین نے کہا کہ کریمہ آج ہزاروں سیاسی کارکنوں کی سیاسی ماں ہے، کریمہ کی تربیت سے احسان، شہداد اور پیرک جیسے نوجوان پیدا ہوتے ہیں اور بلوچ قوم اور انکے ہمدرد کریمہ بلوچ کی موت کو ریاستی اداروں کا کارستانی قرار دیتے ہوئے کینیڈا سے صاف شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ساجد حسین اور کریمہ بلوچ کو ایک ہی طریقے سے مارا گیا اور نشانات مٹانے کے لیے خودکشی کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔مقررین نے کہا کہ عارف، بارکزئی، راشد حسین، ساجد حسین، کریمہ کو بیرون ممالک سے ریاست نے اپنا نشانہ بنایا۔ کینیڈا کو اپنی غلطی تسلیم کرکے معافی مانگ لینی چاہیے وہ بلوچستان کی بیٹی کی حفاظت نہیں کرسکی۔