کوئٹہ:پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سرداریارمحمدرند نے اپنا استعفیٰ گورنربلوچستان کو پیش کردیا۔ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر وصوبائی وزیر تعلیم سرداریارمحمدرند نے اپنا استعفیٰ گورنربلوچستان کو پیش کردیا۔سرداریارمحمدرند کی جانب سے ان کے صاحب زادے میر ببرک رند،ترجمان بابر یوسف زئی نے گورنر بلوچستان کو پیش کیا۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر وصوبائی وزیر تعلیم سرداریارمحمدرند نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وزارت سے مستعفیٰ ہونے اور صوبائی کابینہ سے الگ ہونے کااعلان کرتے ہوئے کہاتھا
کہ بلوچستان حکومت میں وزارت کی ضرورت نہیں،چیک پوسٹوں پر میرے مخالفین کو بٹھایاگیا ہے اگر مجھے یا میرے خاندان کو کوئی نقصان پہنچاتو اس کے ذمہ دار جام کمال خان ولد جام یوسف ہوں گے، ایوان سے نکلتے ہی استعفی گورنر کو بھیج دوں گا،حزب اختلاف کی طرح شکایات تھیں تاہم زیادتی برداشت کرنے کے عادی ہوگئے،جن کو دو روپے زیادہ ملے انہوں نے تعریفوں کے پل باندھ دئیے،
میں نے چیلنج سمجھ کر وزارت تعلیم کا قلمدان لیا جب سے میں وزیربنا ہوں میں ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں کرسکتا جو فائل میں بھیجتا اس پر اعتراض لگا کر اسے واپس میرے پاس بھیج دیا جاتا سالہا سال سے محکمے میں لوگوں کے پروموشن رکے ہوئے تھے میں نے پی اینڈ ڈی، فنانس کی منتیں کرکے پروموشن کرائے۔پاکستان تحریک انصاف بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی ہے ہم نے ان پر اعتماد کیا اور تین سال تک ان کے ساتھ چلتے رہے ہیں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا کیا شکوہ کروں میں نے ایک ایک ضلع کا پیپر ورک کرکے فائل ٹیبل کی مگر اتحادی ہونے کے باوجود ہمیں محروم رکھا گیا
آج اس ایوان میں وزیراعلیٰ کو موجودہونا چاہئے تھا وزیر خزانہ ہمارے فیصلے نہیں کرسکتے نہ ہی وہ ہمارے مسائل حل کرسکتے ہیں مگر افسو س کہ ایوان خالی ہے،2020-21ء کے بجٹ میں لسبیلہ، ظہور بلیدی، نوابزادہ طارق مگسی کے منصوبوں اور میرے حلقے کے منصوبوں کا موازنہ کیا جائے میرے ساتھ یہ بھی ہوا کہ میرے پورے حلقے کو دو پولنگ سٹیشن میں تقسیم کیا گیا تاکہ لوگ ووٹ کاسٹ نہ کرسکیں میرے بہت سے ووٹر ز کو جی تھری کے بٹوں سے زخمی کیاگیا اب ہمیں سوچنا پڑے گا اور لوگوں کو حکمران منتخب کرنے کا حق دینا ہوگا ایسا نہیں کیا تو ملک کا نظام اور جمہوریت کو ہونے والے نقصان کا ازالہ نہیں ہوپائے گا۔
انہوں نے کہا کہ میرا حلقہ کوئٹہ شہر سے شروع ہوتا ہے اور شہداد کوٹ کے ساتھ جا کر لگتا ہے یہاں کچھ دوستوں نے کہا کہ فٹسال گراؤنڈز بنائے گئے ہیں ہسپتال بنائے جارہے ہیں میرا سوال یہ ہے کہ میرے حلقے میں کتنے گراؤنڈز بنے کتنے ہسپتال بنے ہیں دوران زچگی میرے حلقے کی خواتین ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی مرجاتی ہیں۔لسبیلہ کے لئے12ارب روپے دیئے گئے اور میرے حلقے کے لئے دو ارب سے بھی کم رکھے گئے ہیں تین برسوں کے دوران میرے حلقے کے لئے منصوبوں کا اعلان تو ہوتا رہا مگر ان کے لئے فنڈز کتنے مختص ہوئے اور کتنی رقم کا اجراء ہوا اس طرح تو یہ جام محمد کے دور حکومت میں جا کر یہ منصوبے مکمل ہوں۔مجھے اس لئے سزا دی جارہی ہے کیونکہ مجھ سے یہ نہیں ہوتا کہ میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہوں۔
موجودہ حکومت میں 14ماہ وزیر رہا ہوں مجھے پی اینڈ ڈی کے علاوہ تمام محکموں کی آفر کی گئی لیکن میں نے تعلیم کی وزارت کا انتخاب اس لئے کیا کیونکہ میں بلوچستان سے جہالت کے اندھیروں کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا میں نے چیلنج سمجھ کر وزارت تعلیم کا قلمدان لیا جب میں نے وزارت کا قلمدان لیا تو اس سے پہلے سی ٹی ایس پی کے تحت پانچ ہزار افراد کی تعیناتیاں ہوئی تھیں جس میں کرپشن کے ثبوت تھے دو سے تین مرتبہ میں نے وزیراعلیٰ سے درخواست کی کہ ان اسامیوں پر دوبارہ ٹیسٹ کرائے جائیں میں نے ٹیچنگ سٹاف کی تعیناتی میں کوئی مداخلت نہیں کی بلکہ اساتذہ کو بااختیار بنایا۔بدقسمتی سے میرے آنے سے پہلے محکمے میں کلسٹر سسٹم متعارف کرایا جاچکا تھا اور اس کلسٹر سسٹم سے بھی آج پیسے مانگنے شروع کئے گئے ہیں جب سے میں وزیربنا ہوں میں ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں کرسکتا جو فائل میں بھیجتا اس پر اعتراض لگا کر اسے واپس میرے پاس بھیج دیا جاتا سالہا سال سے محکمے میں لوگوں کے پروموشن رکے ہوئے تھے میں نے پی اینڈ ڈی، فنانس کی منتیں کرکے پروموشن کرائے۔ سکول آف ایکسی لینس کے نام سے ہم33اضلاع میں تعلیمی اداروں کے قیام سے متعلق نیا منصوبہ متعارف کرانا چاہتے تھے
جس پر ہم نے مشاورت بھی کی اور جس سے بھی مشاورت کی کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا سات اضلاع میں گرلز کیڈٹ کالج بنانا چاہتے تھے گوادر میں ریذیڈنشل کالج کا منصوبہ تھا وزیراعلیٰ نے بھی اس منصوبے کی تعریف کی مگر جب میں نے اپنی 14مہینوں کی کارکردگی کے حوالے سے میڈیا اور عوام کو آگاہ کیا تو میرا یہ عمل لوگوں کو اتنا برا لگا کہ اس پراجیکٹ کو گزشتہ سال سے روکے رکھا گیا ہے اور اس سال بجٹ میں اعتراض اٹھاتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں صرف ایک ہائی سکول بنایا جائے۔