|

وقتِ اشاعت :   December 15 – 2021

بچے کی خاطر ماں کے دودھ کی اہمیت مسلم ہے۔ یو نیسف نے برسوں کی تحقیق ، مشاورت اور تجربات کے بعد یہ حقیقت سامنے لائی کہ ’’ بچے کے لئے ماں کا دودھ سب سے اچھی غذاہے ‘‘۔امریکہ ،یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں 84 فیصد مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں ۔لیکن پسماندہ ممالک جیسے پاکستان ، انڈیا ،بنگلہ دیش میں صرف 18 فیصد مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں ۔دوسری مائیں بچوں کو ڈبے (جو گائے کا ہی دودھ ہے) یا بکری،گائے،بھینس کادودھ پلاتی ہیں۔تجربات سے ثابت ہوا کہ ماں کے دودھ میں کسی اور دودھ کے مقابلہ میں 200 سے زائد غذائی اجزا موجود ہوتی ہیں جو قدرت نے صرف بچے کے لئے بنائی ہیں، وہ عمر کے لحاظ سے بچے کی مخصوص ضروریات کو پوری کرنے کے لیئے مسلسل بدلتی رہتی ہیں ۔(The breast milk composition include over 200 genetically compatable species specific neutrient which are constantly changing to meet a child’s specific requirments.) اسی طرح قدرت نے گائے کا دودھ بچھڑے کے لئے بنائی بچے کے لئے نہیں۔گائے یا بیل 10 سال کا بھی ہوجائے اسکا عقل ایک سال کے بچے کے برابر نہیں ہوتا۔ترقی یافتہ ممالک میں پیدا ئش سے لے کر ایک سال تک کے بچوں میں اموات 1000 میں صرف 7 ہے۔جبکہ پسماندہ ممالک جیسے پاکستان میں 1000 میں سے 60 بچے ایک سال کی عمر تک موت کا شکار ہوتے ہیں۔ان اموات کی ایک بڑی وجہ ماں کا بچے کواپنا دودھ نہ پلانا ہے۔ماں کا اپنے بچے کو دودھ نہ پلانے کی بڑی وجہ سماجی شعور کا فقدان اور شعبہ صحت کی غفلت ہے۔ بچوں میںان اموات کی بڑی وجوہات میں 60 فیصد نیمو نیا اور 38 فیصد دست الٹی ہیں۔ماں کا دودھ بچوں کے پیٹ میں موجود مائیکرو بیم(microbiome )جو جرا ثیم، وائرس ،فنگس اورایموبا پر مشتمل ہیں کی حفاظت کرتی ہے، اور یہ مائیکرو بیم پہلے 6 ماہ تک بچے کو دست الٹی اور نیمو نیا سے محفوظ رکھتی ہیں۔ اس دوران دوسری خوراکیں ان ما ئیکروبیم کو مارتی ہیں۔
مائیںاپنے بچوں کو دودھ کیوں نہیں پلاتیں؟ اسکی بڑی وجہ یہ غلط فہمی ہے کہ ماں میں دودھ نہیں۔ یہ ایک غلط مفروضہ ہے۔ بچہ پیدا ہو اور ماں میں دودھ نہ ہو یہ قدرت کے قانون کے منافی ہے۔یو نیسف کے مطابق 95 فیصد ماؤں میں دودھ موجود ہے صرف 5 فیصد ما ئیں ایسی ہیں جنکا دودھ بیماری یا کسی اور وجہ سے نہیں ہوتا۔ماں کے دودھ میں مزید اضافہ اور اس کے لئے ساز گار ماحول بنا نے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات کرنے چا ہیئں:
پیدائش کے بعد بچے کو نہلا کر اور اچھی طرح لپیٹ کر ماں کے ساتھ لٹا نا چا ہیئے اور بار بار دودھ پلانے کی کوشش کر نی چا ہیئے یہاں تک کہ بچہ دودھ پینا شروع کر ے ۔ماں کو زیادہ سے زیادہ پانی اور پانی والی خوراک جیسے شربت، دودھ، چائے پلانی چا ہیے۔ماں کو ناشتہ کے علاوہ دن میں تین بارممکنہ حد تک غذائیت سے بھر پور خوراک دینی چا ہیئے۔ماں کی نیند پوری ہونی چاہیے۔ماں کو ذہنی پریشانی سے بچا نا چا ہیئے۔جتنا جلد ممکن ہو بچے کو ماں کا دودھ پلا نا چا ہیئے۔بچے کا پہلا خوراک ماں کا دودھ ہونا چاہیئے۔ دوسری خوراک جیسے چائے،شہد، یا کوئی چیز دھو کر پلانا جیسے سونا وغیرہ سخت نقصان دہ اور جہالت پر مبنی عمل ہے۔چار ماہ تک ماں کا دودھ بچے کے لیئے کافی ہے دوسری خوراک یا پانی دینے کی ضرورت نہیں۔چار ماہ بعد ماں کا دودھ ناکافی ہے ۔ اب ماں کے دودھ کے ساتھ دوسری خوراک جو گھر میں موجود ہو دینی چا ہیئے۔ خوراک تیار کرتے وقت صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ہاتھ اچھی طرح دھونے چاہییں۔ خوراک بتدریج بڑھا نا چا ہئے ۔ابتدا ابلے چاول سے کرنی چاہیئے۔پھر دودھ، انڈا،ابلا آلو اور آٹے کو ابال کر اس میںحسب ضرورت گھی اور چینی ملا کر دینا چاہیئے۔ یہ سب سے اچھی خوراک ہے اورہر گھر میں دستیاب ہے ۔ڈبے کا دودھ بچے کو نہیں دینی چا ہیئے اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ڈبے کا دودھ کافی مہنگا ہے اور دوسری وجہ صاف پانی کی دستیابی اور بوتل کی صفائی بہت مشکل کام ہے۔صفائی نہ ہونے کی صورت میں بچے کو دست الٹی کی بیماری لگ سکتی ہے۔ کہتے ہیں دوسری عالمی جنگ میں ایٹم بم نے جتنے بچے مارے ’بوتل ‘نے ابتک اس سے کئی گنا زیادہ بچے مارے۔بچے کی نشونما پہلے دوسال بہت تیز ہو تی ہے اس لیئے اسے کافی غذا کی ضرورت ہوتی ہے ۔ دو سال تک بچے کو ہر تین گھنٹے بعد خوراک دینی چا ہیئے، دوسری صورت میں بچے کا قد چھوٹا (stunted growth ) ہوگااور ذہنی صلا حیتیں منفی انداز میں متاثر ہونگی۔