دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کیلئے بہترین اقدامات کرتے ہوئے اپنے ممالک کو اس خطرناک صورتحال سے نکالا ہے مگر چند ممالک آج بھی ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہیں جن میں پاکستان خاص کر شامل ہے یہاںبہت سارے مسائل اور چیلنجز اس وجہ سے پیدا ہورہے ہیں۔آلودگی سے مراد قدرتی ماحول میں ایسے اجزاء کا شامل ہونا ہے جس کی وجہ سے ماحول میں منفی اور ناخوشگوار تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔
آلودگی عام طور پر صنعتی کیمیائی مادوں کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن یہ توانائی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے شور، حرارت، روشنی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ آلودگی کی اقسام میں صوتی آلودگی، آبی آلودگی، فضائی آلودگی، برقی آلودگی، غذائی آلودگی، زمینی آلودگی اور بحری آلودگی اہم ہیں۔یہ بہت جان لیوا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والے بہت سارے اسباب اور وجوہات ہیں جیسے کہ درختوں کا کٹاؤ، بڑھتی ہوئی ٹریفک کی وجہ سے زہریلی گیسوں کے اخراج میں اضافہ، کوڑے کے ڈھیر کو آگ لگانا، کارخانوں سے زہریلی گیسوں کے اخراج میں اضافہ وغیرہ۔
یہ بے شمار وجوہات میں سے چند ہیں اور بدقسمتی سے ان تمام کا تعلق ہم انسانوں سے ہے۔ ہم اگر اپنا مثبت کردار ادا کریں اور انفرادی طور پر اپنی ذمہ داری کا احساس کریں تو یقیناً آلودگی پر قابو پا کر اس سے ہونے والی تباہی سے نہ صرف خود بچ سکتے ہیں بلکہ اپنی نسلوں کو بھی بچا سکتے ہیں۔ ہم اگر فضلے کے ڈھیر اور فصلوں کو کاٹنے کے بعد ان کو آگ نہ لگائیں تو یقیناً آلودگی پر قابو پا سکتے ہیں۔ ہم اگر درختوں کو کاٹنے کی بجائے لگانے والے بنیں یا اگر مجبوری میں کاٹنا پڑ جائے تو کاٹ کر نیالگا بھی دیا جائے تو یقیناً آلودگی پر قابو پا سکتے ہیں۔ ہم اگر کم آلودگی والی یا ہائبرڈ گاڑیاں استعمال کریں تو اس آلودگی پر یقیناً قابو پا سکتے ہیں۔
ہمیں سائیکل کلچر کو معاشرتی اور سرکاری سطح پر فروغ دینا چاہیے بجائے اس کے کہ سائیکل چلانے والے کو غریب تصور کیا جائے اور حقارت کی نظر سے دیکھا جائے۔ سائیکل کلچر کو فروغ دے کر جہاں ہم معاشرے میں پائے جانے والے تکبر سے باہر نکل سکتے ہیں وہاں صحت کے معیار کو بہتر کرتے ہوئے آلودگی پر بھی قابو پا سکتے ہیں۔حکومت کو بھی اس سنگین مسئلہ سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے متعلقہ محکموں کے ذریعے اس چیلنج اور خطرناک صورتحال پر کسی حد قابو پایا جاسکتا ہے۔