|

وقتِ اشاعت :   September 4 – 2023

اسلام آباد :  پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ رواں برس نو مئی کو ملک میں جو کچھ ہوا وہ بغاوت اور خانہ جنگی کی جانب ایک کوشش تھی۔

جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ نو مئی کے واقعات کا ہدف موجودہ آرمی چیف اور ان کی ٹیم تھی۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ایسا تاثر نہیں دینا چاہتے کہ نو مئی کے ملزمان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی ہو رہی ہے ۔

 

لیکن اگر ملکی قوانین کو پامال کرنے اور تشدد پر آمادہ جماعت کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی نہ ہوئی تو ہم اس معاملے میں فریق نظر آئیں گے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے سائفر سے متعلق معاملے پر پوچھے گئے سوال پر جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس معاملے پر کوئی تحقیقات نہیں کی ہے اور اگر کروں بھی تو میرا منصب اس بات کی اجازت نہیں دیتا ۔

کہ اس کو عوامی سطح پر زیر بحث لاؤں۔ملک میں حالیہ دہشت گردی اور بلوچستان میں ناراض بلوچوں کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی اگر بات کریں تو اس وقت حکومت اور ریاستی ادارے وہاں لوگوں کے مسائل کو سمجھنے کے لیے کوشاں ہیں۔

انھیں مرکزی دھارے میں واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہیں اور ان کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا جہاں تک ملک میں سرحد پار دہشت گردی کی بات ہے تو روشن اور پر امن پاکستان کا خواب پرامن افغانستان سے جڑا ہے۔اگر افغانستان میں امن ہو گا تو پاکستان میں بھی استحکام آئے گا۔

اس لیے حکومت اس وقت طاقت اور مذاکرات دونوں کا راستہ اپنائے ہوئے ہے۔پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ملک میں بجلی کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاج پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بجلی ایسا مسئلہ نہیں جس پر پہیہ جام ہڑتال کی جائے اور ہمیں اس طبقے سے بہت ہمدردی ہے جس پر بجلی بلوں کا بہت بوجھ ہے۔

انھوں نے کہا کہ رات کو دکانیں جلد بند کرنے سے متعلق فیصلہ صوبوں کو اعتماد میں لے کر کریں گے اور فیصلے کا نفاذ جلد نظر آئے گا، بجلی کے معاملے پر جلدی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے، ہم ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے جو بعد میں واپس لینا پڑے۔انھوں نے اداروں کی نجکاری سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک میں کوئی شاہی حکم دے کر اداروں کی نجکاری نہیں کر سکتے۔

اس معاملے میں کچھ قواعد ہیں جن پر عمل کرنا ہے۔ اس بارے میں ادارے کام کر رہے ہیں۔انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات پر بات کرتے ہوئے نگراں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کیے بنا انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات کا آغاز نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر کی حیثیت پر فیصلہ انڈیا کے ضمیر نے کرنا ہے