کوئٹہ: سابق گورنر پنجاب پیپلز پارٹی کے مقتول رہنماء سلمان تاثیر کے مغوی صاحبزادے شہباز تاثیر کو ساڑھے چار سال بعد کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک سے بازیاب کرالیا گیا۔ شہباز تاثیر کو اگست 2011ء میں لاہور سے اغواء کیا گیا تھا۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ کے مطابق شہباز تاثیر کو کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک میں سیکورٹی اداروں نے مشترکہ طور پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں بازیاب کرایا۔ شہباز تاثیر کوئٹہ میں اور خیریت سے ہیں ۔انہیں جلد از جلد لاہور بجھوانے کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ ان کی بازیابی بلوچستان حکومت اور ملک کیلئے خوشی کا باعث ہے تاہم انہوں نے آپریشن کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ ایف سی ترجمان ڈاکٹر خان واسع کی جانب سے جاری کئے گئے مختصر بیان میں بھی بتایا گیا کہ آج شام کچلاک میں ایف سی اور حساس اداروں نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں سلمان تاثیر کو بازیاب کرایا۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ(انسداد دہشتگردی ڈیپارٹمنٹ) کے ایس ایس پی آپریشنز اعتزاز گورایہ نے بتایا کہ کارروائی میں سی ٹی ڈی نے بھی حصہ لیا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے بھی شہبا ز تاثیر کی بازیابی کی تصدیق کی اور بتایا کہ شہباز تاثیر خیریت سے اور جسمانی اور ذہنی طور پر تندرست ہے۔ تاہم بلوچستان حکومت ، ایف سی ترجمان سمیت کسی نے آپریشن کی تفصیل نہیں بتائی کہ شہباز تاثیر کو کہاں رکھا گیا تھا اور کس طریقے سے انہیں بازیاب کرایا گیا۔ اغواء کار کہاں گئے۔ دوسری جانب ٹی وی رپورٹس میں سیکورٹی ذرائع اور ہوٹل مالک کے حوالے بتایا گیا کہ شہباز تاثیر کی بازیابی کسی آپریشن کے نتیجے میں عمل میں نہیں لائی گئی بلکہ انہیں اغواء کاروں نے خود ہی کچلاک کے مین بازار میں چھوڑا جہاں وہ کوئٹہ چمن بین الاقوامی شاہراہ پر واقع السلیم ہوٹل گئے اور وہاں کھانا کھانے کے بعد لاہور میں موجود اپنی والدہ کو فون کرکے بازیابی کی اطلاع دی ۔ جس کے بعد شہباز تاثیر کی والدہ نے لاہور اور راولپنڈی میں اعلیٰ سیکورٹی حکام کو یہ خبر پہنچائی ۔ اعلیٰ سیکورٹی حکام تک اطلاع پہنچتے ہی کوئٹہ میں موجود سیکورٹی ادارے حرکت میں آئے اور فوری طور پر کچلاک پہنچے اور شہباز تاثیر کو اپنی حفاظتی تحویل میں لیکر کوئٹہ چھاؤنی پہنچایا جہاں ان کا طبی معائنہ کرایا گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری اور کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض سمیت اعلیٰ سیکورٹی حکام نے بھی کچلاک کا دورہ کیا۔ میڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد بھی موقع پر پہنچی اور ہوٹل سے براہ راست کوریج کی۔ السلیم ہوٹل کے مالک نے کیمروں کے سامنے کچھ بتانے سے گریز کیا تاہم ملازمین نے صحافیوں کو غیر رسمی گفتگو میں بتایا کہ منگل کی شام تقریباً پانچ بجے ایک پریشان حال شخص ہوٹل میں آیا اور روش(گوشت) کا آرڈر دیا۔ کھانے کا بل350روپے بنا جو اس نے ادا کیا اور اس کے بعد اپنے گھر فون کرنے کیلئے موبائل مانگا۔ ہوٹل کے مالک نے موبائل دینے سے انکار کیا اور بتایا کہ سامنے پبلک کال آفس (پی سی او) سے کال کرنے کریں جس کے بعد وہ شخص باہر گیا۔تھوڑی ہی دیر بعد سیکورٹی فورسز کے اہلکار ہوٹل میں داخل ہوئے اور لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کرنے شروع کئے تو شہباز تاثیر نے چیختے ہوئے اپنی شناخت کرائی جس پر سیکورٹی اداروں نے انہیں تحویل میں لے لیا۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ شخص سلمان تاثیر کا بیٹا تھا۔ اس نے گرے کلر کے کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کی داڑھی اور بال کافی بڑے تھے۔ شکل و صورت سے بالکل مقامی یا طالب ہی معلوم ہوتا تھا تاہم اس نے پنجابی لہجے میں اُردو میں بات چیت کی۔ یاد رہے کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو26اگست 2011ء کو لاہور کے علاقے گلبرگ سے نامعلوم افراد نے دن دیہاڑے اس وقت اغواء کیا گیا جب وہ اپنی گاڑی میں گھر سے دفتر جارہے تھے۔ ان کے اغواء کی ذمہ داری کالعدم مذہبی تنظیم نے قبول کرتے ہوئے بازیابی کے بدلے کروڑوں روپے تاوان مانگا تھا۔ ذرائع کے مطابق شہباز تاثیر کی بازیابی کیلئے ممتاز قادری کی رہائی کی شرط بھی رکھی گئی تھی ۔ ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق شہباز تاثیر کے اغواء میں کالعدم لشکر جھنگوی کے مقامی گروہ کے سرغنہ عثمان بسرا ملوث تھے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور لاہور کی یو ای ٹی یونیورسٹی کا ڈگری ہولڈر تھا۔ اغواء کے فوری بعد شہباز تاثیر کو آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع لاہور کے پوش علاقے میں واقع ہاؤسنگ سوسائٹی میں رکھاگیا ۔کچھ دنوں بعد سابق گورنر کے بیٹے کو قبائلی علاقوں میں منتقل کرکے اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے حوالے کیا گیا۔ سیکورٹی اداروں کو کراچی ایئر پورٹ حملے تحقیقات کے دوران بنوں کا ایک موبائل فون نمبر ملا تھا۔ جس کی تفصیلات نکالنے پر معلوم ہوا کہ اسی نمبر سے اغواء کاروں نے لاہور کے ایک لینڈ لائن نمبر پر کال کی گئی تھی جو سلمان تاثیر کے گھر کا نمبر تھا۔ اسی نمبر سے شہباز تاثیرکی اہلخانہ سے بات کرائی گئی تھی ۔ سیکورٹی اداروں کو تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ عثمان بسرا امریکی شہری اور یو ایس ایڈ کے نمائندے کے اغواء میں بھی ملوث تھے جسے بعد ازاں قبائلی علاقے منتقل کیا گیا۔ اور یہ مغوی امریکی شہری امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔ جس پر امریکی صدر نے اپنے ملک عوام سے معافی بھی مانگی تھی۔ عثمان بسرا سری لنکن ٹیم پر حملے میں بھی ملوث تھا۔