ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کے مظاہروں کے شدت اختیار کرنے کے بعد حکومت نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا ہے اور فوج طلب کر لی ہے۔
بنگلہ دیش کی حکومت نے احتجاج سے نمٹنے کے لیے ملک بھر میں کرفیو نافذ کرکے فوج کو طلب کر لیا ہے۔
حکومت کے ترجمان نعیم الاسلام خان نے کہا کہ حکومت نے کرفیو نافذ کرنے اور سویلین حکام کی مدد کے لیے فوج کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کرفیو فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
رواں ہفتے بنگلہ دیش میں طلبہ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 105 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ مظاہرے 15 سال اقتدار میں رہنے کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے لیے ایک اہم چیلنج ہیں۔
اس سے قبل دارالحکومت ڈھاکا میں پولیس نے مزید تشدد کو روکنے کی کوشش میں ایک دن کے لیے تمام عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کرنے کا سخت قدم اٹھایا تھا۔
بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کا احتجاج جاری ہے۔ اس نظام کے تحت، 1971 کی جنگ میں پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے والے بنگلہ دیشیوں کے بچوں اور خاندانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں کچھ حصے مختص ہیں۔ تاہم مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس نظام سے میرٹ پر مبنی بھرتی کا عمل متاثر ہوتا ہے اور اس سے دیگر امیدواروں کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔
حکومت کے کرفیو نافذ کرنے اور فوج طلب کرنے کے اقدامات کے باوجود، بنگلہ دیش میں حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔ کئی شہروں میں مظاہرے جاری ہیں اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے بنگلہ دیش میں تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مظاہرین کے ساتھ پرامن طریقے سے بات چیت کرنے کی اپیل کی ہے۔