اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تحقیقات میں مجھ پر الزامات ثابت ہوگئے تو گھر چلا جاؤں گا۔
قوم سے اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ وہ خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کررہے ہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ چیف جسٹس کو خط لکھیں گے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیں۔
وزیراعظم کا اپنے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ وہ اس کمیشن کی سفارشات کو قبول کریں گے۔
تاہم اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘اگر مجھ پر الزامات ثابت نہ ہوئے تو وہ لوگ جو روزانہ جھوٹے الزامات کا بازار گرم کررہے ہیں، قوم سے معافی مانگیں گے؟’
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ان پر اسی طرح کے الزامات کی تحقیقات کی گئی تاہم ایک پائی کی کرپشن ثابت نہ ہوسکی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ جمہوری ممالک کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بغیر خدا کے خوف کے جھوٹ بولا جارہا ہے لیکن عوام باشعور ہیں، انہوں نے ہر الیکشن میں اس جھوٹ کو ووٹ کی طاقت سے شکست دی۔
نواز شریف نے کہا کہ آئین کی کون سی شق کے تحت ان لوگوں نے فوجی آمر کے ہاتھ پر بیعت کی، منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑیاں لگا کرکس قانون کے تحت ملک سے باہر بھیجا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے سوالوں کا جواب بھی دیا جائے، عوام کا منتخب نمائندوں سے سوال پوچھنا ان کا حق ہے، کمیشن قائم ہی نہیں ہوا کچھ لوگوں نے فیصلہ بھی صادر کردیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت شفافیت پر یقین رکھتی ہے، جن کے خلاف غیرملکی عدالتوں نے فیصلےصادر کئے وہ ہمیں اخلاقیات کا سبق پڑھا رہے ہیں۔
گزشتہ سال کے پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کنٹینر پر کھڑے ہوکر بازاری زبان استعمال کی گئی، ہمارے خاندان کو جو کھربوں کا نقصان پہنچا اس کا حساب کون دے گا۔
انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ جہازوں پر سفر کرنے والوں کا حساب کون دے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں وزیر اعظم کا یہ تیسرا جبکہ پاناما لیکس پر دوسرا خطاب ہوگا۔
پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہونے کے بعد رواں ماہ 5 اپریل کو وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں اس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن 3 ہفتوں میں کمیشن کا قیام عمل میں نہیں آسکا۔
پاناما لیکس پر خطاب سے قبل لاہور کے اقبال پارک میں 28 مارچ کو ہونے والےخود کش حملے میں 72 افراد کی ہلاکت کے بعد بھی وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کیا تھا۔
آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟
– کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
– کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اس سے قبل پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا، بعد ازاں پیپلز پارٹی نے بھی تحریک انصاف کے مطالبے کی حمایت کی اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے وزیراعظم کو تجویز دی کہ وہ کمیشن کے قیام کے لیے سپریم کورٹ کو خط ارسال کر دیں۔
پاناما لیکس
واضح رہے کہ دو ہفتے قبل آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔
تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی ‘آف شور’ کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔
ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔
ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔
اس سلسلے میں وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم دو ہفتے گزرنے کے باوجود یہ کمیشن قائم نہیں ہو سکا، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے یہ انکشاف بھی سامنے آچکا ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق 2 چیف جسٹس سمیت 5 سابق ججز تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی سے انکار کر چکے ہیں۔
واضح رہےکہ ضروری نہیں افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں کیونکہ برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے۔
موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق، وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔
خیال رہے کہ یو این کمیٹی نے 2005 میں انکشاف کیا تھا کہ یہ کمپنی عراق میں ’تیل کے بدلے خوراک‘ اسکینڈل میں ملوث تھی۔
اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔
میڈیا مینیجر پاشازی ٹی وی سمیت دوسرے انڈین چینلز سے کاروباری معاہدے کرتے رہے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ عثمان سیف اللہ پی پی پی کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔
سابق جج ملک قیوم کا نام بھی دستاویزات میں شامل ہے، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔
لیکس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔
لیکس میں بتایا گیا کہ ثمینہ درانی کم از کم تین آف شور کمپنیوں Rainbow Ltd, Armani River Ltd and Star Precision Ltd جبکہ میراج Haylandale Ltd میں بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔
تاہم، میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔