لاہور : مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما و سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کو بناتی ہے جس سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں،
غلطی چند لوگ کرتے ہیں، سزا ساری جماعت کو ملتی ہے، اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے سیاست، اقتدار حاصل کرنے کی روایت ختم ہونی چاہیے،
خیبر پختونخواہ میں وہ قوتیں زور پکڑ رہی ہیں جن کا آئین پاکستان پر یقین ہی نہیں جبکہ بلوچستان میں علحیدگی کی مسلح تحریک چل رہی ہے ،سب جماعتوں سے پوچھتا ہوں کہ بلوچستان کے مسائل پر سیاست کیوں نہیں کرتیں،پ
اکستان کے خلاف بیرونی سازشوں سے بچنا ہے تو ہمیں اکٹھا ہونا پڑے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میری غلام حیدر وائیں سے پہلی ملاقات نومبر1981ء میں ہوئی ‘ اپنی جماعت کیلئے ان جیساجوش و جذبہ میں نے کسی اور میں نہیں دیکھا۔ وہ درویش صفت اور سادہ طبیعت انسان تھے‘ انہوں نے ہمیں کام، کام اور کام کا درس دیا۔
وہ حقیقی معنوں میں آئرن مین اورعدم تشدد کے قائل تھے۔ غلام حیدر وائیں پنجاب میں میرٹ پالیسی لیکر آئے‘ وہ مسلم لیگ کیلئے مینارۂ نور ہیں اور ان کانام مسلم لیگ کی تاریخ سے نکالا نہیں جا سکتا ۔انہوں نے کہا کہ میں نواز شریف کی گڈ بک میں نہیں تھا لیکن وائیں صاحب کا پیارا تھا۔میں ان خوش قسمتوں میں سے ہوں جسے وائیں صاحب سے ڈانٹ نہیں پڑی۔غلام حیدر وائیں نے سیاسی کیریئر میں میرا کافی ساتھ دیا، ضیاء الحق اس وقت صدرِ پاکستان تھے،
میں اس آمریت کے خلاف تھا، وائیں صاحب کو جن لوگوں نے مارا وہ ہارڈ کور کرمنلز تھے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور دائرے کا سفر ختم نہیں ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حالات آپ کے سامنے ہیں لیکن سنجیدہ قیادت ان مسائل پر بات کرتی نظر نہیں آ رہی ۔ مسائل کے حل کیلئے اسٹبلشمنٹ، عدلیہ، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر بیٹھنا ہو گا۔ایسا نہ ہونے سے نان سٹیٹ ایکٹر مضبوط ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کو بناتی ہے جس سے کچھ مشکلات پیدا ہوتی ہیں، کوئی سیاسی جماعت اپنا منشور پڑھنے کی بھی روادار نہیں، غلطی چند لوگ کرتے ہیں، سزا ساری جماعت کو ملتی ہے، یہ جو پارٹی رگڑا کھا رہی، یہ لوگ بھی اسی وجہ سے اس موڑ پر کھڑے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے سیاست کرنا اور اقتدار حاصل کرنا تمام سیاسی قائدین کا محبوب مشغلہ رہا ہے اس روایت کو ختم کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور اسٹبلشمنٹ کی لڑائی بڑی ہے، حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان آتش فشاں بنا ہوا ہے اس پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ۔بلوچستان کا مسئلہ سب سے اہم مسئلہ ہے، وہاں علحیدگی کی مسلح تحریک چل رہی ہے ،اپنی پارٹی سمیت سب جماعتوں سے پوچھتا ہوں کہ بلوچستان میں کام کیوں نہیں کرتے۔کے پی میں وہ قوتیں زور پکڑ رہی ہیں جن کا آئین پاکستان پر یقین ہی نہیں ۔
آئین پاکستان کو تسلیم کرنے والی جماعتوں کو ایک ساتھ بیٹھنا ہو گا، ریاستی اداروں کو بھی سوچنا ہو گا، پاکستان کے خلاف بیرونی سازشوں سے بچنا ہے تو ہمیں اکٹھا ہونا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ نقاب پوش مارشل لا نظام کو کمزور کرتے ہیں ، عدلیہ کے حالات ناگفتہ بہ ہو گئے اچھے خاصے جج متنازع ہو گئے ۔انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کو ماننے والے آج دست و گریبان ہیں۔
سیاسی جماعتیں گراس روٹ لیول پر سیاست کیوں نہیں کرتیں، المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے کچھ نہیں سیکھا، ملکی سیاست میں دائرے کا سفر تاحال ختم نہیں ہوا، کوئی سیاسی جماعت اپنے منشور پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں، سیاسی جماعتوں کو درباری مراثی اور خوشامدی چاہئیں سیاسی کارکن نہیں ،جماعت اور اس کی فیملی کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے کہ یہی قدر و دانش کے مستحق ہیں ۔
نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں باریاں لے رہی ہیں،جو آج باری دے رہے ہیں انہیں ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اب آپ کی باری ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اپنی لیڈر شپ کی عزت کریں لیکن انکی پوجا نہ کریں ،جھوٹی تعریف کر کے ہم اچھے خاصے سیاسی لیڈر کا دماغ خراب کر دیتے ہیں۔غلام حیدر سچ بولنے والی شخصیت تھے وہ صاف ستھری سیاسی شخصیت تھے جن کے دامن پر کوئی داغ نہیں ۔
میں قیادت کے سامنے سخت بات کرتا ہوں وہ عمل کریں یا نہ کریں انکی مہربانی سن لیتے ہیں۔
شہباز شریف معیشت ٹھیک کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ کہ کوئی بھی خود احتسابی کے عمل سے گزرنے کے لیے تیار نہیں، غلطیاں سب نے کیں لیکن کوئی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، سیاست میں کوئی کسی کو دفن نہیں کر سکتا، کوئی ہمیں دفن نہیں کر سکا نہ ہم کسی کو دفن نہیں کر سکتے۔
ارب پتیوں اور کروڑ پتیوں کی جمہوریت نہ چل سکتی ہے نہ ڈیلیور کر سکتی ہے،ہمارا پڑوسی ترقی کر گیا ہے دشمن ہے لیکن آگے نکل گیا ہے ۔