|

وقتِ اشاعت :   1 day پہلے

بلوچستان سے منسلک ایران کے سرحدی علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں کی بندش سے مقامی تاجر اور لوگ معاشی پریشانی سے دوچار ہیں۔
گزشتہ کئی ماہ سے تجارت پر بندش اور محدود پیمانے پر گاڑیوں کی اجازت سے مقامی لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ مقامی تاجروں اور عوام کا ذریعہ معاش سرحدی تجارت سے وابستہ ہے جس کی بندش کے باعث لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں ۔
بلوچستان میں ماسوائے ضلع لسبیلہ حب میں صنعتی زون کے دیگر اضلاع میں کوئی صنعتی زون موجود نہیں اور نہ ہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرمایہ کاری موجود ہے ،بڑی مارکیٹیں نہیںیعنی بلوچستان میں روزگار کے مواقع بہت ہی محدود ہیں خاص کر سرحدی علاقوں میں تو بارڈر ٹریڈ کے علاوہ کوئی بھی تجارتی مواقع دستیاب نہیں کہ جس سے ان کے گھر کے چولہے جلیں۔
دہائیوں سے پاک ایران سرحد پر دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں کے رہائشی بارڈر ٹریڈ کے ذریعے اپنا روزگار کماتے ہیں مگر سرحدوں پر سختی اور بندش کے باعث اب لوگ بہت زیادہ متاثر ہیں۔
گوادر میں آل پارٹیز کی جانب سے میرین ڈرائیو پر ایک ہفتے سے زائد سرحدی تجارت کی بندش، پانی، بجلی کے مسائل کے خلاف دھرنا جاری ہے۔
مظاہرین کا اولین مطالبہ ہے کہ تیل اور دیگر اجناس کی تجارت کے لیے ایران کے ساتھ سرحد کو دوبارہ کھول دیا جائے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ سرحدی تجارت گوادر کے رہائشیوں کے لیے روزی کمانے کا بنیادی ذریعہ ہے اور سرحد کی طویل بندش کی وجہ سے اکثر لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔
رہنماؤں نے کانتانی ہور بارڈر پر ٹوکن سسٹم متعارف کرانے پر تنقید کرتے ہوئے اسے تجارت کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام نے خطے میں بیروزگاری میں اضافہ کیا ہے۔مظاہرین نے ٹوکن سسٹم کے فوری خاتمے اور سرحد پر بلاروک ٹوک تجارت جاری رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔
احتجاج میں شریک مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سی پیک منصوبے کے لیے اہم سمجھے جانے والے گوادر شہر بجلی اور پینے کے پانی سے محروم ہے۔
بہرحال احتجاجی دھرنے کے شرکاء کے ساتھ اب تک حکومتی سطح پر کوئی مذاکرات نہیں ہوئے ہیں مگر حکومتی اتحاد میں موجود اراکین اسمبلی اوروزراء بھی پاک ایران سرحد پر تجارتی بندش پر ناخوش ہیں جس کا اظہار انہوں نے اسمبلی فلور پر بھی کیا ہے مگر اس دیرینہ مسئلے کا حل اب تک نہیں نکالا گیا ہے کہ پاک ایران سرحد پر تجارتی سرگرمیوں کی بحالی کے حوالے سے راستہ نکالا جائے تاکہ سرحدی علاقوں کے لوگ معاشی بحران سے نکل جائیں۔
اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کوئی درمیانہ راستہ نکالتے ہوئے پاک ایران سرحد پر تجارتی سرگرمیوں کو بحال کرائے جس کیلئے قانونی راستہ اپنانے پر بھی غور کیا جائے جو سب کیلئے قابل قبول ہو ،سرحد پر تجارتی بندش و سختی سے معاملہ مزید گھمبیر شکل اختیار کرسکتا ہے لہذا اس اہم مسئلے کو حل کرنے کیلئے حکومت فریقین سے بات چیت کرے اور اس مسئلے کا مستقل بنیادوں پر حل نکالے جو سب کے مشترکہ مفاد میں ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *