|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2017

اسلام آباد / کوئٹہ:پشتو نخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ ورکن قومی اسمبلی محترم محمود خان اچکزئی نے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے 30 جنوری کو اسلام آباد میں فاٹا کے عوام اور قبائلی عمائدین کے ہمراہ کانفرنس کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت فاٹا کے ڈیڑھ کروڑ عوام کی مشاورت سے فاٹا اصلاحات کے عمل کو مکمل کرے ،پانچ یا چھ بیوروکریٹ ملکر فاٹا اصلاحات کی کتاب نہیں چھاپ سکتے خیر کا کام منفی انداز میں کرنا دکھ کی بات ہے،ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ پشتون تاریخ میں کبھی کوئی دہشت گرد یا فرقہ پرست پیدا نہیں ہوا البتہ وطن کی خاطر مر مٹنے کو تیار رہتے ہیں فاٹا کو علاقہ غیر کہنا مناسب نہیں ، فاٹا میں ترقیاتی کاموں پر مجوزہ طور پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کی نگرانی کے لئے فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ پرمشتمل کمیٹی بنائی جائے۔ وہ پیر کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں سینیٹر ہلال حسین مہمند،سینیٹر عثمان خان کاکڑ،ایم این اے عبد القہار خان ودان ، سابق سفیر ایاز وزیر ، پشتونخوامیپ خیبر پشتونخوا کے صوبائی صدر مختار خان یوسفزئی ،پشتونخوا میپ اسلام آباد کے سیکرٹری حاجی عبد القیوم خان اچکزئی کے ہمراہ پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ امریکا، چین اور پاکستان سمیت تمام طاقتوں نے پشتون بیلٹ کو روسی فوج کے خلاف فرنٹ لائن کے طور پر کھڑا کیا اور لاکھوں غیرملکی فاٹا میں لا کر انہیں خطرناک اسلحے سے لیس کیا گیا۔ آج جب فاٹا میں اصلاحات کی بات ہو رہی ہے تو وہاں کے لوگوں سے کوئی نہیں پوچھتا۔ غلط انداز میں دنیا بھر میں یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ فاٹا قاتلوں اور وحشیوں کا مرکز ہے اور اسے علاقہ غیر کہہ کر پکارا جاتا ہے جو غلط ہے حالانکہ فاٹا محب وطن لوگوں کا وہ ٹکڑا ہے جنہوں نے کبھی مادر وطن کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا۔ ہم تمام پشتونوں اور خاص طور پر فاٹا کو دہشت گردوں کا اڈا اور وحشیوں کا مرکز قرار دینے کی مذمت کرتے ہیں۔ فاٹا کبھی دہشت گرد نہیں رہا۔ صرف حملہ آوروں کے خلاف لڑتا رہا ہے۔ فاٹا کی چھ کی چھ ایجنسیاں محب وطن لوگوں کا مرکز ہیں۔ ہم مولانا فضل الرحمن کے بھی مشکور ہیں کہ انہوں نے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے آواز اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے وہاں کے لوگوں سے نہیں پوچھا گیا ہم لوگ مل کر آواز اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ 30 جنوری کو اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں فاٹا اصلاحات کے حوالے سے وہاں کے نمائندوں، دانشوروں، سابق سرکاری افسران پر مشتمل ایک کانفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف سی آر کے خاتمے، فاٹا میں جمہوری اصلاحات، سکولوں اور کالجوں و یونیورسٹیوں کی تعمیر کا کوئی مخالف نہیں ہے۔فاٹا اصلاحات کا کام ساڑھے 8دن میں کیا گیا جس پر حیرت ہوتی ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ حکومت پاکستان کو تمام فاٹا کے عوام کو بھروسہ دلانا ہو گا کہ فاٹا کے مالک وہاں کے عوام ہیں اور ہم آپ کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں۔ فاٹا کی آبادی بلوچستان سے زیادہ ہے اور بلوچستان سے زیادہ وہاں پر پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ فاٹا ڈیونڈر لائن، بلوچستان، خیبرپختونخوا سے منسلک ہے وہاں پر کوئی بھی عمل ہو اس کے اثرات ان تمام علاقوں پر پڑتے ہیں ہم اس سے لاغرض نہیں رہ سکتے۔ فاٹا میں اصلاحات کے لئے وہاں کے عوام کے ساتھ مشاورت اور اتفاق رائے ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ عجلت میں کیا گیا کوئی بھی فیصلہ ملک کے لئے مشکلات پیدا کرے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں اربوں روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ صرف دو چار بیوروکریٹ خرچ کریں گے؟ اس کے لئے فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ایک نگران کمیٹی ہونی چاہئے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے رپورٹ میں کئی جگہ پر غلط بیانی کی گئی ہے۔ فاٹا میں لوگوں کے گھر جلائے گئے ان کے بچے مارے گئے لیکن آج تک کسی نے پاکستان کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ فاٹا کی خاموشی کو مثبت انداز میں لینا چاہئے۔ فاٹا میں متاثرین کو گھر کی تعمیر کے لئے 4 لاکھ روپے دینا کہاں کا انصاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کمیٹی نے ساڑھے 8 دنوں میں 7 ایجنسیوں اور ایف آر علاقوں کا دورہ مکمل کیا۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ 35 ہزار مربع میل کا علاقہ ساڑھے 8 دنوں میں مکمل ہو اور لوگوں کی رائے بھی لے لی جائے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر ہلال حسین مہمند نے کہا کہ ہم سے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے رپورٹ تیار کرتے ہوئے کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور نہ ہی ہم نے اس رپورٹ پر دستخط کئے ہیں۔ اس رپورٹ کے آخر میں جو فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ کے دستخط لگائے گئے ہیں وہ ایف آر سی کے حوالے سے ایک کمیٹی میں ہم نے کئے تھے سابق سفیر ایاز وزیر کا کہنا تھا کہ ہم حکومت پاکستان سے کوئی ایسی چیز نہیں مانگیں گے جو جمہوریت کے اصولوں کے تحت نہ ہو۔ آج تک ہمارے لئے فیصلے باہر کے لوگ کرتے آئے ہیں ڈیڑھ کروڑ لوگوں سے پوچھ کر فیصلہ کیا جائے۔ فاٹا کو صوبہ بنانے یا اسے خیبرپختونخوا میں ضم کرنے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔