|

وقتِ اشاعت :   March 10 – 2017

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ ایک عرصے سے غیر ملکی صحافیوں کے لیے ممنوعہ علاقہ ہے۔ جہادی گروہوں اور علیحدگی پسند عسکریت پسندوں نے یہاں خونی حملے کیے ہیں جبکہ علیحدگی پسند قریباً ایک عشرے سے سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان علیحدگی پسندوں کو جلاوطن سیاسی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے جو آزاد ریاست کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ خان آف قلات میر سلیمان داؤد کہتے ہیں کہ ’ہم بنیادی طور پر آزادی چاہتے ہیں۔ ہم ایک آزاد ملک تھے لیکن ہماری ریاست کو ختم کر کے اُن کا محکوم بنایا جا رہا ہے جن کا حکمرانی کا کوئی تجربہ ہی نہیں ہے۔‘ خیال رہے کہ بلوچستان میں 30 ہزار سے زیادہ سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں سینکڑوں فوجیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے لیکن فوج کا اصرار ہے کہ حالات پر ان کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے نہ کہ کمزور۔ اس بارے میں سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض کہتے ہیں: ’میں نہیں سمجھتا کہ ان کا کوئی سیاسی اثرو رسوخ بچا ہے اور لوگ ان کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اب عسکریت پسند کچھ علاقوں میں محدود ہو کر عوام کے خلاف ہر طرح کے جرائم میں ملوث ہیں۔‘ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ریاست نے پچھلے کئی سالوں میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے اور اب صورتحال اس سطح پر آ چکی ہے کہ عسکریت پسند قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں رہے ہیں۔‘ علیحدگی پسندوں کی شکایت ہے کہ فوج انسانی حقوق کی پامالی، لوگوں کو معاشی طور پر کمزور کرنے اور علاقے میں تباہی پھیلانے میں ملوث ہے۔ بلوچستان میں عسکریت پسندی ایک ایسے وقت جاری ہے جب بلوچستان کی اہمیت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ چین یہاں اربوں ڈالروں کی سرمایہ کر رہا ہے۔ پاکستانی حکام سمجھتے ہیں کہ چینی سرمایہ کاری سے علاقے کو بہت معاشی فائدہ ہوگا اور اسی لیے وہ یہاں پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی فوج کو شکایت ہے کہ انڈیا پاکستان کو کمزور کرنے کی غرض سے علیحدگی پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔ اعلیٰ فوجی اہلکار وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انھوں نے بلوچستان میں لوگوں کے حقوق کی بات کی تھی۔ دوسری جانب افغانستان اور پاکستان کے مابین لوگوں کی آمد و رفت پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ جہاں بلوچ علیحدگی پسند حملے کر رہے ہیں وہیں مذہبی شدت پسند بھی پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ دونوں فریق دعویٰ کرتے ہیں کہ سرحد پار کیا ہو رہا ہے وہ دیکھ سکتے ہیں۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ بلوچستان کی علاقائی سیاست مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ باشکریہ بی بی سی نیوز، اوون بینیٹ جونز