|

وقتِ اشاعت :   April 29 – 2018

پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حکومت کا چھٹا اور آخری بجٹ پیش کردیا۔وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 59 کھرب 32 ارب 50 کروڑ روپے ہے اور یہ 1890.2 ارب روپے خسارے کا بجٹ ہے جو کہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 4.9 فیصد ہے۔ماضی کے پانچ بجٹ کے برعکس اس بجٹ کی کوئی خاص سمت متعین نہیں کی گئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر اس اقدام کا مقصد آنے والی حکومت کو یہ موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ اسے اپنی مرضی کی سمت دے سکے۔بجٹ تقریر سے چند گھنٹے قبل ہی مفتاح اسماعیل نے وفاقی وزیر خزانہ کا حلف اٹھایا جبکہ بجٹ اجلاس کے آغاز پر اپوزیشن کی جانب سے اس پر شدید احتجاج بھی کیا گیا۔آئندہ مالی سال کے لیے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ہدف 6.2 فیصد رکھا گیا ہے جبکہ حکومت کو امید ہے کہ وہ ٹیکس وصولیوں کی مد میں 4435 ارب روپے جمع کر لے گی۔

افراط زر کی شرح چھ فیصد سے کم رکھنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جبکہ بجٹ خسارہ 4.9 فیصد تک لانے کا ہدف ہے۔توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے 138 ارب روپے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام کے لیے وفاقی بجٹ میں 800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کا کل حجم 1030 ارب روپے رکھا گیا ہے اور مختص 800 ارب کے علاوہ اضافی 230 ارب سیلف فنانسنگ کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے۔

توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے 138 ارب روپے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ پاکستان ریلوے کی ترقیاتی سرمایہ کاری کے لیے 39 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔پانی ذخیرہ کرنے کے لیے 70 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔12 لاکھ روپے سالانہ تک آمدن ٹیکس فری ہو گی۔یکم جولائی 2018 سے سول اور فوجی ملازمین کو ان کی بنیادی تنخواہ پر 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا جائے گا جبکہ تمام پنشنرز کے لیے بھی یکساں دس فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

75 سال سے زیادہ عمر کے پنشنرز کے لیے پنشن کی کم از کم حد 15 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی جا رہی ہے۔سرکاری ملازمین کے لیے ہاؤس رینٹ الاؤنس میں بھی 50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔وزیراعظم کی جانب سے تنخواہ دار افراد کے لیے ٹیکس کی جس چھوٹ کا ٹیکس ایمنٹسی سکیم میں اعلان گیا تھا اسے بھی بجٹ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔اس سکیم کے تحت اب 12 لاکھ روپے سالانہ تک آمدن ٹیکس فری ہو گی۔12

لاکھ سے 24 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں کو پانچ فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔24 لاکھ سے 48 لاکھ روپے آمدن والوں کو 10 فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔48 لاکھ سے زائد آمدن رکھنے والوں کو 15 فیصد ٹیکس کی ادائیگی کرنا ہو گی۔40 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد کی خریداری کے لیے ٹیکس دہندہ ہونا لازمی ہو گا۔

حکومت نے دفاعی بجٹ میں 100 ارب روپے یعنی 10.2 فیصد کا اضافہ کر کے اسے 1100 ارب روپے کرنے کی تجویز دی ہے اور یوں پاکستان کا دفاعی بجٹ اب ایک کھرب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔گزشتہ سال یہ اضافہ نو فیصد تک تھا، حکومت کئی برس سے ملکی دفاعی بجٹ میں افراط زر کے تناسب سے اضافہ کرتی رہی ہے تاہم اس بار یہ اضافہ اس شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ 

بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے 97 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ صحت کے شعبے کے لیے 13.9 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ حکومت نے ملک بھر میں بچوں میں غذائی کمی کے خاتمے کے لیے 10 ارب روپے علیحدہ سے مختص کیے ہیں۔

زرعی قرضوں کا ہدف 1100 ارب رکھا گیا ہے جبکہ زرعی مشینری پر سیلز ٹیکس سات فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کر دیا گیا ہے۔موجودہ حکومت نے توبجٹ پیش کردیا، اب نئی بننے والی حکومت اسے کیا سمت دے گی اور کیا نئی حکومت اپنے قیام کے بعد اسی بجٹ کو آگے لے کر چلے گی یا پھر ایک نئی ضمنی بجٹ پیش کر ے گی، یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔