|

وقتِ اشاعت :   May 6 – 2018

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کوئٹہ میں تقریر کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا یہی دہشت گردی کا خاتمہ ہے کہ ہزارہ برادری کے لوگ مارے جا رہے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ ہمیں طعنہ دیا جاتا ہے کہ ہم شہیدوں کی سیاست کرتے ہیں لیکن ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہماری سیاست کی بنیاد شہدا کے خون سے وفا ہے۔

پارٹی چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بلاول کا کوئٹہ میں کسی سیاسی جلسے سے پہلا خطاب تھا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ جن لوگوں کا کوئی بچھڑگیا نہیں تو انھیں اس بات کا کیا پتہ کہ اپنے پیاروں کو کھونے کا درد کیا ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر اگر عمل درآمد نہ ہوتو نام نہاد سیاست دانوں کو کیا فکر کیونکہ ان کا کوئی پیارا اس طرح ان سے جدا نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ہمارا مسئلہ ہے کیونکہ کراچی سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے گلگت بلتستان تک ہم نے لاشیں اٹھائی ہیں۔ جب تک نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہوتا ، ہم آواز بلند کرتے رہیں گے۔

بلوچستان کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے آج بھی بلوچستان کے وسائل پر ڈاکہ ڈالاجارہا ہے ۔ 

بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ این ایف سی ایوارڈسے لیکر 18ویں ترمیم اور بلوچستان پیکج تک،سب کا مقصد بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کاخاتمہ تھا اورہے، آج بھی ہم وفاق کے ساتھ محکوم صوبوں کے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں کیونکہ وفاق نے یہاں کے وسائل پر قبضہ کررکھا ہے۔ سی پیک منصوبہ بلوچستان میں نظر نہیں آتا البتہ لاہور میں سی پیک سے بھرپور فائدہ اٹھایاجارہا ہے۔ 

بلاول بھٹو نے عمران خان اورنواز شریف کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ دونوں کا مسئلہ صرف اقتدار ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔یادش بخیر، پاکستان پیپلزپارٹی نے عوامی طاقت کا مظاہرہ 10 سال بعدعین اسی مقام پر کیا جہاں پر ان کی والدہ سابق وزیراعظم شہید بینظیر بھٹو نے 2007ء میں ہاکی اسٹیڈیم میں جلسہ کیا تھا ۔ 

2008ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مخلوط حکومت بنائی ، اس وقت پیپلزپارٹی بلوچستان میں اہم شخصیات شامل تھیں جو اب پیپلزپارٹی کی صفوں سے باہر نکل چکے ہیں ۔اس بات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ پیپلزپارٹی کو یہاں کی سیاسی جماعتوں خاص کر حکومت میں شامل چند وزراء کی ہمدردیاں حاصل ہیں لیکن یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرینگے یا نہیں۔ 

چونکہ یہاں پہلے سے ہی ایک نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جس میں موجودہ حکومتی ارکان کی شمولیت کا قوی امکان ہے۔اور اس امکان کو بھی رد نہیں کیاجاسکتا کہ پیپلزپارٹی عام انتخابات میں بلوچستان سے کچھ کامیابی حاصل کرسکتی ہے اورمخلوط حکومت میں شامل ہوسکتی ہے۔ 

بہرحال آنے والے دنوں میں بلوچستان کی سیاست میں اہم تبدیلیاں متوقع ہیں۔ فی الوقت مسلم لیگ میدان سے باہر نظر آرہی ہے جبکہ پی ٹی آئی بھی اپنی پوزیشن بنانے میں مصروف ہے ۔ عام انتخابات میں بلوچستان میں ایک طرف قوم پرست تو دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے درمیان بعض حلقوں میں کانٹے دار مقابلے کا امکان ہے۔