چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے سابق وزرائے اعلیٰ کے پانی کا مسئلہ حل کرنے کی کوششوں کے جوابات غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ غیرقانونی ٹیوب ویلوں کو بند کیا جائے، پانی کا بل ادا نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے، پانی کی قیمت مقرر کرنے پر بھی غور کیا جائے۔
آبی قلت کیس کی سماعت کے دوران احکامات جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ اور بلوچستان میں پانی کی فراہمی کے لیے تجاویز‘ حل اور سفارشات ایک ماہ کے اندر تحریری طور پر عدالت میں پیش کیے جائیں۔
کوئٹہ اور بلوچستان میں پانی کی قلت کے معاملے پر سابق وزرائے اعلیٰ ‘ چیف سیکرٹری اور واسا کے نمائندوں سے استفسار کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ پانی کی فراہمی کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے گا۔
بلوچستان ہائی کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں آبی قلت ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اورجسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران دونوں سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے ۔
سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے عدالت کو بتایا کہ پٹ فیڈر کینال کوپورے سال دریائے سندھ سے پانی فراہم ہوتا ہے،40بلین روپے پٹ فیڈر منصوبے کیلئے مختص کئے گئے لیکن اس پر کام شروع نہیں ہوسکا۔ پٹ فیڈر کینال کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کا بہترین ذریعہ ہے۔
9بلین روپے مانگی ڈیم پر خرچ کئے گئے، ہم نے مانگی ڈیم پر کام شروع کرایا تھا، اس میں بارش کا پانی جمع ہوسکتا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ ہرنائی اور زیارت میں بارشوں کی وجہ سے مانگی ڈیم میں وافر مقدار میں پانی جمع ہوسکتا ہے۔
سیکرٹری ایری گیشن نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں 2ہزار کلو میٹر پانی کی پائپ لائن بچھائی گئی مگر پانی نہیں آرہا۔پائپ لائن پر 10ارب خرچ کئے گئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کوئی کمیٹی صوبائی اسمبلی میں ہے جو پانی کی کمی کے معاملے پر کام کررہی ہو۔ عوامی مسائل حل کرنا منتخب نمائندوں کا کام ہے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے گزشتہ 5 سالوں سے حکومت کیا کررہی تھی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پالیسی بنانے والے بیوروکریٹ ہوتے ہیں ،اور اس نے کیا پالیسی دی ہے، اس کاآج پتہ چلا کہ کوئٹہ میں پانی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے۔ حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا تاریخ اور آئندہ نسل حکمرانوں کو معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں اتنا بتایا جائے کہ دستیاب وسائل سے آئندہ 4 سالوں میں پانی فراہم کیا جائے گا۔
سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ پانی کیلئے کل بجٹ کا صرف 5 فیصد رکھا جاتا ہے اس سے کیسے کام کریں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاکہ پالیسی اور ڈائریکشن دینا عدلیہ کا کام نہیں۔
چیف جسٹس نے سابق وزیراعلیٰ سے سوال کیا کہ کیا یہ انسان کا بنیادی حق نہیں کہ اس کو پانی فراہم کیا جائے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ پانی کے معاملے پر جس قدر کام ہونا چاہئے تھااتنا نہیں کیا گیا۔
عدلیہ احکامات دیں، مستقبل کی ضرورتوں کے پیش نظر بجٹ میں رقم مختص کی جائے گی۔ سیکرٹری ایری گیشن نے عدالت کو بتایا کہ پانی کے 100 پروجیکٹس میں سے 50 مکمل کرلئے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ان 50 مکمل منصوبوں سے لوگ کتنا مستفید ہوئے ۔سیکرٹری ایریگیشن نے عدالت کو بتایا کہ فنڈز نہ ہونے کے باعث منصوبوں سے پانی کی فراہمی نہ ہوسکی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کا مطلب 50 منصوبوں سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے عدالت کو بتایا کہ پانی کی فراہمی کا مستقل حل پٹ فیڈر میں ہی ہے۔ چیف جسٹس نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھرمیں پانی کا مسئلہ انتہائی سنگین صورت اختیار کرچکا ہے ۔عدالتی احکامات کے بعدکیا یہ معاملہ حل ہوجائے گا، اور اگر ایسا ہوگیا تو عوام چیف جسٹس کے عوام دوست کردار کو کبھی بھول نہیں پائیں گے، اور ایک دوسرے پہلو سے بھی معاملات کو دیکھا جائے گا کہ سیاست دانوں کا کیا کردار ہے، انہیں عوامی مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
صرف مراعات اور پروٹوکول اور قومی خزانے کی لوٹ مارہی ان کا مطمع نظر ہے، ایسے سیاستدانوں کو عوام کیوں ووٹ دیں جو ووٹ کو عزت دینے کی تو بات تو کرتے ہیں لیکن ووٹرکو عزت دو، سہولت دو، کے بارے میں ان کے لب خاموش ہیں۔