|

وقتِ اشاعت :   August 14 – 2018

ملک میں عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ شروع ہو گیا ہے جس میں پیر کو قومی اسمبلی کے علاوہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے نومنتخب ارکان پارلیمان نے حلف اٹھایا ۔

قومی اسمبلی کے 329 ارکان، سندھ کے 165 ، بلوچستان کے 60 اور خیبر پختونخوا کے 112 ارکان نے حلف اٹھایا جبکہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس بدھ کو ہو گا جہاں تحریک انصاف حکومت بنانے کی سب سے بڑی دعوے دارجماعت ہے جبکہ مسلم لیگ نون نے بھی حکومت بنانے کا دعویٰ کر رکھا ہے تاہم اس کی جانب سے حکومت بنانے کے برعکس مضبوط حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کی باتیں زیادہ سامنے آ رہی ہیں۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں حلف برداری کے بعد اگلے مرحلے میں اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہو گا اور اس کے بعد قائد ایوان کا انتخاب کیا جائے گا اور آخری مرحلے میں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ حلف لینے کے بعد اپنی کابینہ تشکیل دیں گے اور یوں منتقلی اقتدار کا مرحلہ اختتام پذیر ہوگا۔

پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کے مصافحے کو خصوصی کوریج دی گئی۔حزب اختلاف کی جماعتوں نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ایوان میں آواز بلند کرنے کا اعلان کر رکھا ہے ۔

تاہم پیر کو اجلاس کے موقع پر کوئی ہنگامہ آرائی دیکھنے میں نہیں آئی اور صرف مہمانوں کی گیلری سے سیاسی نعرے بلند ہوئے جنہیں ا سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے خاموش کروا دیا۔

قومی اسمبلی، صوبہ سندھ اور بلوچستان میں نومنتخب ارکان اسمبلی نے حلف اٹھائے اور اس کے بعد ارکان نے رولز آف ممبرز کے رجسٹر پر دستخط کیے ،یوں پہلا اجلاس کا پہلامرحلہ ختم ہوا۔اب سندھ اسمبلی کا اجلاس بدھ تک جبکہ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعرات تک جبکہ قومی اسمبلی کا جلاس بدھ تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔

سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی جبکہ کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت بنائے گی۔بلوچستان میں باپ پارٹی بہترین پوزیشن میں ہے جو اب تک حکومت سازی کیلئے اکثریتی ارکان کی حمایت حاصل کرچکی ہے جبکہ بی این پی مینگل کے سربراہ نے اس سے قبل کہا تھا کہ وزارت اعلیٰ کامنصب ہمارا حق ہے مگر اب تک بی این پی مینگل کی جانب سے وزارت اعلیٰ کیلئے کسی کو نامزد نہیں کیا گیاہے۔ 

بلوچستان میں حکومت سازی کا مرحلہ ملک میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک جام کمال کو پارلیمانی لیڈر نامزد کیا گیا ہے مگر یہ قیاس آرائیاں بھی سامنے آرہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے سردار یارمحمدرند بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار بن سکتے ہیں ۔

جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کے مرکزی قائدین نے باپ کے صدر جام کمال خان کی وزارت اعلیٰ کیلئے نامزدگی پر حمایت کررکھی ہے اورمشاورتی اجلاس کے دوران بھی پی ٹی آئی کے پارلیمانی کمیٹی نے باپ کی حمایت کررکھی ہے۔ 

فی الحال وزارت اعلیٰ کیلئے حتمی طور پر کچھ نہیں کہاجاسکتا اگر بی این پی مینگل اور پی ٹی آئی کسی کو نامزد نہیں کرتے تو باپ کے جام کمال وزارت اعلیٰ کیلئے سب سے مضبوط امیدوار ہونگے اور اس طرح وہ سادہ اکثریت لیکر اس منصب پر بیٹھیں گے۔ 

دوسری جانب مرکز میں متحدہ اپوزیشن نے بھی ایوان میں مقابلہ کیلئے کمر کس لی تھی مگر لگتا نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے سامنے انہیں کامیابی حاصل ہوگی۔ 

ملک کے متوقع وزیراعظم عمران خان ایک اچھی پوزیشن میں ہیں اور پی ٹی آئی نے وزارت عظمیٰ کیلئے اکثریت حاصل کرلی ہے۔ ملک میں پر امن انتقال اقتدار جمہوریت کیلئے نیک شگون اور ملکی استحکام کیلئے بڑی کامیابی ہے ۔اس عمل کو جاری رہنا چائیے ۔