ممتاز کاروباری افراد کے وفود کے ساتھ، انھیں یہ یقین دلانے کے لیے کہ نیب ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا، وزیر اعظم اور آرمی چیف کی حالیہ الگ الگ ملاقاتوں سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا جو مسلم چیمبر آف کامرس بمبئی کے پہلے سیکرٹری جنرل ایس ایم جمیل نے مجھے بتایا تھا۔ان کے مطابق قائد اعظم نے انھیں کہا کہ وہ مسلمان کارو باری افراد کو پاکستان آنے اور وہاں سرمایہ کاری پر آمادہ کریں۔
Posts By: بابر ایاز
طالبان سے معاہدہ- افغان جمہوری عمل کی نفی
صدر ٹرمپ نے جنھیں ٹویٹ کرنے کا بہت شوق ہے، افغان طالبان سے مذاکرات کے بارے میں جو پیغام بھیجا اس پر بہت سے لوگوں نے تنقید کی ہے مگر اس کے باوجود یہ مثبت پیغام ہے۔
آزادی صحافت کی صورت حال
پاکستان میں آزادی صحافت کی صورت حال کا اندازہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ڈائریکٹوریٹ(آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل سے حامد میر کے اس سوال سے لگایا جا سکتا ہے کہ میڈیا کو پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کو انٹرویو کرنے اور ان کے خلاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے الزامات کا جواب حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے حامد میر کو یہ اجازت نہیں دی۔
نیب قوانین
دو بڑی سیاسی جماعتیں جو اب اپوزیشن میں ہیں اور باری باری حکمرانی کرتی رہی ہیں نیب آرڈیننس میں ترمیم نہ کرنے کی اپنی سنگین غلطی پر کف افسوس مل رہی ہوں گی۔شاید یہ غلطی دانستہ کی گئی کیونکہ پی پی پی اور پی ایم ایل(این)کی قیادت نیب کے آج کے انتہائی طاقت ور قانون کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے برقراررکھنا چاہتی تھی۔ا نھوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ قانون عمران خان کی حکومت کی طرف سے،جو خود کو کرپشن کا صفایا کرنے کی چیمپئن کہتی ہے ،اُن کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔
سعودی ولی عہد کا دورہ ء پاکستان
وزیر اعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ،دونوں کی تعلقات عامہ (پی آر) کی ٹیموں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دو روزہ دورہ ء پاکستان کی کامیابی کے کریڈٹ کا دعویٰ کیا ہے،جس سے ملک میں سول ملٹری توازن کی جھلک نظر آتی ہے۔ اگر میاں نواز شریف وزیر اعظم ہوتے تو شایدخارجہ پالیسی کی کامیابی پر اعزاز کی ایسی حصے داری ممکن نہ ہوتی۔
18 ویں ترمیم کیوں کھٹک رہی ہے؟
1929 میں مسلم لیگ کے 14 نکات میں درج ذیل دو نکات بھی شامل تھے: * مستقبل کے آئین کی طرزوفاقی ہو نی چاہیئے جس میں باقی ماندہ اختیارات صوبوں کے پاس ہوں۔ * تمام صوبوں کو یکساں خود مختاری دی جائے گی۔
کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی تبدیل ہو رہی ہے؟
پاکستان کی طرف سے افغان طالبان رہنماؤں کو بالآخر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ کرنے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے امید کی کرن نظر آئی ہے۔امریکا کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان رہنماؤں کے درمیان مذاکرات18 دسمبر کو ابو ظہبی(متحدہ عرب امارات) میں ہوئے۔ پہلے یہ بات چیت دوحہ میں طے تھی مگر قطر اور خلیجی ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے مقام تبدیل کر کے ابو ظہبی کا چناؤ کیا گیا۔پاکستان متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو مذاکرات میں شامل کرنا چاہتا تھاکیونکہ طالبان کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیں اور یہ دونوں ملک افغان طالبان کی کچھ مالی مدد بھی کرتے ہیں۔یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے حقانی گروپ کو سامنے بٹھا کر اس سے بات چیت کی،حالانکہ اقوام متحدہ کی طرف سے انھیں دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔
خفیہ اداروں کے سابق سربراہوں کی بات چیت۔۔اچھا شگون
یہ خاصی دلچسپ بات ہے کہ کتاب’ The Spy Chronicles: RAW, ISI and the Illusion of Peace”ایسے وقت میں سامنے آئی جب سپریم کورٹ نے شہرت یافتہ اصغر خان کیس ایک بار پھر سماعت کے لیے کھولا،اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ کتاب کے شریک مصنف او ر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی )کے خلاف انتخابات جیتنے کے لیے مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو فنڈز دیئے تھے۔
تحقیقاتی رپورٹنگ اور کسی کی خواہش پررپورٹنگ
قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے نا مناسب طور پرجاری کیے جانے والے اس پریس ریلیز کی بنیاد دوسرے درجے کے ایک اردو اخبار میں چار ماہ قبل شائع ہونے والے کالم پر تھی کہ وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف 4.9 بلین امریکی ڈالر منی لانڈری کے لیے بھارت بھیجنے کی تحقیقات کرے گا۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ صحافی جس نے یہ کالم لکھا اور نیب کے حکام ،جنھوں نے چار ماہ قبل شائع ہونے والے اس الزام کی تحقیقات کے لیے جلد بازی کی، دونوں اُس بنیادی جبلت سے عاری ہیں جو کسی صحافی اور تحقیقاتی ادارے کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔اور یہ ناگزیر جبلت یہ ہے کہ انھیں ہر اس اطلاع کو جو اُن تک پہنچے، شک کی نظر سے دیکھنا چاہیئے۔
ڈاکٹر عشرت کی نئی تصنیف- کچھ باتیں، وضاحتیں
پاکستان کی سیاسی معیشت کے بارے میں زیادہ کتابیں نہیں لکھی گئیں،اور اگر کچھ کتابیں منظر عام پر آئی بھی ہیں تو وہ ڈاکٹر عشرت حسین جیسے ممتاز لکھاری کی تحریر کردہ نہیں ہیں،جن کے پاس اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سربراہی اور قومی کمیشن برائے حکومتی اصلاحات کی صدارت(2008) کا تجربہ بھی ہے۔