امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک مِلے نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا ء اب بھی مشروط ہے۔جنرل مارک ملے کا کہنا تھا کہ افغانستان سے مزید امریکی فوجیوں کے انخلا ء کا انحصار تشدد میں کمی اور فروری میں طالبان کے ساتھ طے پایاجانے والے دیگر شرائط پر ہوگا۔جنرل مارک ملے نے کہا کہ ہم سوچ سمجھ کر اور ذمہ داری کے ساتھ جنگ ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جنگ ان شرائط کے ساتھ ختم کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں افغانستان میں داؤ پر لگے ہوئے۔
بلوچستان میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی گیس غائب ہوجاتی ہے شدید سردی کے دوران عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے کیونکہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں سردی کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔ گزشتہ دو دنوں سے سردی کی لہر شروع ہوتے ہی گیس کا پریشر انتہائی کم ہو گیا ہے۔یہ صرف موجودہ موسم سرما کی بات نہیں بلکہ ہر بار یہی رویہ بلوچستان کے عوام کے روا رکھا جاتا ہے کہ انہیں اپنے ہی صوبے سے نکلنے والی گیس سے محروم کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کے دعوے توبہت کئے جاتے ہیں مگر یہ محض دعوے ہی ہوتے ہیں۔
مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی زیرصدارت منعقدہ نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی کے اجلاس سے متعلق جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں اشیائے ضروریہ کی دستیابی اور ان کی قیمتوں پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔سرکاری اعلامیے کے مطابق اجلاس میں گندم، چینی، ٹماٹر، پیاز، آلو اور چکن سمیت دیگراشیا ئے ضروریہ کی قیمتوں پر بھی بات چیت کی گئی۔ اجلاس میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پرکنٹرول اوران کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے مختلف تجاویزکا تبادلہ کیا گیا۔وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اجلاس میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے ہدایت دی کہ صارفین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ہرممکن اقدامات یقینی بنائی جائیں۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پیر سے حکومت اشیائے خوردونوش کی قیمتیں نیچے لانے کے لیے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لائے گی۔سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی ملک میں ہونے والی مہنگائی کے عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا ملک میں اشیائے خورونوش کی واقعی قلت ہے یا پھر یہ مافیاز کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی وجہ سے ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس بات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا ملک میں مہنگائی بین الاقوامی منڈی میں دالوں اور پام آئل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے تو نہیں ہے۔
پی ڈی ایم نے اپنے احتجاجی تحریک کے حوالے سے نیا شیڈول جاری کردیا ہے،سب سے پہلے اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد ملک بھر میں جلسے منعقد کرے گی گویا یہ اپوزیشن کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہوگا کہ عوام کی کتنی بڑی تعداد ان جلسوں میں شرکت کرتی ہے اور اپوزیشن کے بیانیہ کی کس حد تک حمایت کرتی ہے۔مگر اس دوران حکومت بھی اپوزیشن سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی پر غور کررہی ہے جس طرح گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر کہہ دیا کہ اگر قانون کو ہاتھ میں لیاگیا تو گرفتاریاں ضرور ہونگی، سب کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔
بلوچستان وسیع تر صوبہ اور آبادی کے حوالے سے دیگرصوبوں کے مقابلوں میں کم آبادی پر مشتمل ہے اسی طرح ترقی کے لحاظ سے بھی بلوچستان سب سے پیچھے ہے حالانکہ بلوچستان کا ذکر جب بھی وفاقی سطح پر کیاجاتا ہے تو سی پیک سمیت یہاں کے ذخائر اور وسائل کو فوقیت حاصل رہتی ہے۔یہاں کے وسائل سے وفاق نے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا ہے جبکہ بلوچستان کو اس کے جائز حصہ سے محروم رکھا گیا ہے۔ اگر بلوچستان میں چلنے والے میگا منصوبوں اور سوئی گیس کی مد میں جائز رائلٹی اور واجبات کی ادائیگی کی جاتی تو شاید بلوچستان کا یہ نقشہ نہ ہوتا جو آج ہے۔
عالمی بینک نے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کی ترقی کی شرح 0.5 فیصد سے بھی کم رہنے کی توقع ہے۔عالمی بینک کی جانب سے ایشیائی ممالک کی شرح نمو سے متعلق رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئندہ سال جنوبی ایشیاء میں ترقی کی شرح منفی 7.7 فیصد سے بہتر ہو کر 4.5 فیصد ہونے کی توقع ہے۔جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے ورلڈ بینک کے چیف اکنامسٹ ہینس ٹمر کاکہناہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے اچھی خبر نہیں ہے اور مستقبل کی صورتحال انتہائی خوفناک ہے۔
وفاقی کابینہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف بغاوت کے مقدمے کے معاملے پر تقسیم ہوگئی۔اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نوازشریف سمیت ن لیگی اراکین کے خلاف ایف آئی آر کا معاملہ زیر بحث آیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ غداری کی ایف آئی آر سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، حکومت سیاسی انتقام کے حق میں نہیں۔اطلاعات کے مطابق تین اراکین نے ایف آئی آر کو منطقی انجام تک پہنچانے کا مشورہ دیا، ان افراد میں دو وفاقی وزراء اور ایک معاون خصوصی شامل ہیں جنہوں نے ایف آئی آر کی حمایت کی۔
ملک میں سیاسی حالات پر تبصرہ زور شور سے جاری ہے کہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ پی ڈی ایم کے ہر اجلاس کے فیصلوں کو شہ سرخیوں کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جبکہ اس پر گھنٹوں بحث مباحثہ بھی کیاجارہا ہے، اسی طرح حکومت کے ہر ردعمل کو بھی اسی طرح سے ہی اجاگر کیاجارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت کیا پلان کرنے جارہی ہے اور پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کے حوالے سے کیا سوچ بچار کررہی ہے۔اسی طرح گرفتاریوں کا معاملہ بھی سیاسی افق پر ہے مگر اس تمام صورتحال میں عوامی مسائل بالکل نظرانداز ہیں جس کی واضح مثال حالیہ مہنگائی کی لہر ہے۔
اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم کا دباؤ کس حد تک حکومت پر برقرار رہے گا یہ وہ سوال ہے جس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں،فی الحال تبصرے اور پیشنگوئیاں اور قیاس آرائیاں جاری ہیں مگر مصدقہ طور پر اندرون خانہ اپوزیشن کی پلاننگ کیا ہے یہ کسی کے علم میں نہیں البتہ سب اپنی آراء دے رہے ہیں اور ملک میں سیاسی درجہ حرارت اس وقت اپنے عروج پر ہے اپوزیشن نے گوکہ اپنے جلسہ کے شیڈول میں رد وبدل کیا ہے مگر تحریک اپوزیشن نے چلانی ہے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ اپوزیشن کی تحریک کس حد تک پُر اثر ثابت ہوگی جو حکومتی ایوان میں ہلچل اور پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔