|

وقتِ اشاعت :   October 6 – 2020

اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم کا دباؤ کس حد تک حکومت پر برقرار رہے گا یہ وہ سوال ہے جس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں،فی الحال تبصرے اور پیشنگوئیاں اور قیاس آرائیاں جاری ہیں مگر مصدقہ طور پر اندرون خانہ اپوزیشن کی پلاننگ کیا ہے یہ کسی کے علم میں نہیں البتہ سب اپنی آراء دے رہے ہیں اور ملک میں سیاسی درجہ حرارت اس وقت اپنے عروج پر ہے اپوزیشن نے گوکہ اپنے جلسہ کے شیڈول میں رد وبدل کیا ہے مگر تحریک اپوزیشن نے چلانی ہے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ اپوزیشن کی تحریک کس حد تک پُر اثر ثابت ہوگی جو حکومتی ایوان میں ہلچل اور پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔

اس پر بھی مختلف آراء دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ بعض حلقے اپوزیشن کی تحریک کو محض وقتی دباؤ قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب یہ بھی کہاجارہا ہے کہ حکومت کیلئے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں،دونوں آراء اپنی جگہ موجود ہیں مگر موجودہ سیاسی حالات میں سب سے زیادہ شہ سرخیوں میں شیخ رشید ہی دکھائی دیتے ہیں جس طرح انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کی عسکری قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں کو پبلک کیا اور تمام احوال بتایا کہ کون کون سی شخصیات عسکری قیادت کے ساتھ ملاقات کے دوران موجود تھے جس پر اپوزیشن کا شدید ردعمل دیکھنے کو ملا،اپوزیشن کا سیخ پاہونا بجا ہے۔

کیونکہ انہوں نے اس ملاقات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی اور اسے صیغہ راز میں رکھا۔ جب اے پی سی کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا تو اس کے بعد شیخ رشید میدان میں اترے اور اپوزیشن کی جانب سے سیاسی معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور ایک سخت گیر بیانیہ جو سامنے آیا گویا وہ زائل ہوکر رہ گیا جبکہ سوالات بھی اٹھنے لگے کہ جو اپوزیشن جماعتیں اتنی بلند وبانگ دعوے کررہی ہیں اندرون خانہ خفیہ ملاقاتوں کو سامنے کیوں نہیں لاتے جس سے اس تاثر کو زیادہ تقویت ملی کہ اپوزیشن اپنے مفادات کیلئے ایک پیج پر ہے۔ بہرحال سوالات حکومت اوراپوزیشن دونوں کے حوالے سے موجود ہیں۔

حکومت اپنی کارکردگی کے حوالے سے خاص کر عوام میں زیادہ مقبولیت نہیں لے پا رہی،اسی طرح اپوزیشن کا ایک پیج پر نہ ہونے سے عوام مطمئن دکھائی نہیں دے رہی۔ سیاسی حالات کس سمت جائینگے اس پر سب سے زیادہ شیخ رشید کے بیانات کا جائزہ لیاجاتا ہے چونکہ ان کے بیانات میں تنقید سے زیادہ انکشافات ہوتے ہیں۔ایک بار پھر راولپنڈی میں منعقدہ تقریب کے دوران شیخ رشید نے اپوزیشن کی تحریک پر وار کرتے ہوئے کہاکہ اپوزیشن سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، وزیراعظم عمران خان اپنی آئینی مدت ضرور پوری کریں گے، وزیراعظم اسمبلی تحلیل کردیں گے لیکن اپوزیشن کو این آر او نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں عوامی حمایت سے محروم ہیں، 11 کو 18 تاریخ کردیا،ان کا ساتھ کوئی نہیں دے رہا۔شیخ رشید نے کہا کہ نوازشریف بتائیں کہ کالے کوٹ میں میمو گیٹ کا درخواست گزار کون تھا؟ ن لیگ سے ش نکلے گی اور ضرور نکلے گی۔ یہ سمجھتے ہیں شہباز شریف کو ش کہا ہے ابھی ٹھہر جاؤ۔نوازشریف نے نیپال میں مودی سے جوملاقا ت کی کیا اس کا حا ل احوال دفتر خارجہ کو بتایا؟ نوازشریف نے بینظیر بھٹو کی کردار کشی میں کس کو استعمال کیا؟انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے 10 ماہ ٹویٹر اکاؤنٹ کیوں بند کیا؟ آپ نے ٹویٹر اکاؤنٹ اس لیے بند کیا کہ آپ کو باہر جانے دیا جائے گا۔

وزیرریلوے شیخ رشید نے کہا کہ پیپلزپارٹی والے استعفے نہیں دیں گے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اندر سے متحد نہیں ہے۔ جلسے اور ریلیاں تو مولانا فضل الرحمان نے کرنی ہے۔شیخ رشید کا کہنا تھا کہ انکی خواہش فنانشل ایکشن ٹاسک فورس قانون سے پہلے نیب ہے۔شیخ رشید کی یہ بات کہ ش سے شہباز شریف نہیں تو ن سے ش دوسرا کون ہے؟ کیا پھر ایک لیگ بننے جارہی ہے اور اس جماعت کو بنانے میں کون سی سیاسی شخصیات متحرک ہیں چونکہ شیخ رشید کے بعض انکشافات مصدقہ ہوتے ہیں شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ش سے شیخ رشید ہوں مگرکچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ بہرحال ملکی سیاست میں کچھ بھی ہونا بعید نہیں ہے اور کسی جماعت کا وجود میں آنا کوئی نئی بات نہیں مگر اس کی عوامی پذیرائی ومقبولیت کی اہمیت ہماری سیاسی تجربوں اور تاریخ سے ہی لگائی جاسکتی ہے۔