|

وقتِ اشاعت :   October 12 – 2020

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پیر سے حکومت اشیائے خوردونوش کی قیمتیں نیچے لانے کے لیے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لائے گی۔سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی ملک میں ہونے والی مہنگائی کے عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا ملک میں اشیائے خورونوش کی واقعی قلت ہے یا پھر یہ مافیاز کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی وجہ سے ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس بات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا ملک میں مہنگائی بین الاقوامی منڈی میں دالوں اور پام آئل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے تو نہیں ہے۔

وزیراعظم کا اپنے ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے سے ہم غذائی اجناس کی قیمتیں کم کرنے کے حوالے سے تمام ریاستی اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے اپنی پالیسی نافذ کریں گے، وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بارہا نوٹس لینے کے باوجود بھی مہنگائی کا جن بے قابو ہے، اس کی وجوہات آخر کیا ہیں کیونکہ گزشتہ سال جون میں اچانک اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تو اس دوران حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرناپڑا اور عوام کی جانب سے بھی شدید ردعمل دیکھنے کو ملا تو اس دوران وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو فوری اقدامات کرتے ہوئے۔

تمام صوبائی چیف سیکرٹریز کو مہنگائی کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کرنے کی بھی ہدایت کی اور وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور بد عنوانی کی روک تھام کے لیے خصوصی مہم شروع کرنے کی ہدایت بھی کی تھی جبکہ متعلقہ اداروں کو ہدایت کرتے ہوئے قیمتوں میں بلا جواز اضافہ کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا حکمنامہ بھی جاری کیا تھا کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے مگر اس تمام صورتحال کے بعد بھی مہنگائی کا جن بے قابو رہا۔ اب ایک بار پھر وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے نوٹس لیا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کیا حالیہ نوٹس بھی کارگر ثابت ہوگا، عوام کو ریلیف فراہم کی جائے گی،مافیاز کے خلاف سخت کارروائی کو یقینی بنایا جائے گا، ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کریک ڈاؤن کیاجائے گا، انتظامیہ کو متحرک کرتے ہوئے پرائس کنٹرول پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے ان سے جواب طلبی کی جائے گی،روزانہ کی بنیاد پر سرکاری نرخنامہ جاری کرتے ہوئے انہیں چیک کیاجائے گا جوکہ مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے اورکیا وہ اتنی فعال ہے کہ وہ عوام کو اس عذاب سے نجات دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔بہرحال ماضی کے نوٹس اور فیصلے سامنے ہیں کہ ان پر کس حد تک عملدرآمد ہوا۔

اگر نوٹس اور فیصلوں کو سنجیدگی سے لیاجاتا تو باربار نوٹس لینے کی نوبت نہیں آتی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ آج ملک میں مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عوام کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوکر رہ گیا ہے روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے افراد سمیت ماہوار تنخواہ دار ملازمین بھی موجودہ صورتحال سے انتہائی پریشان ہیں اس لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس عمل کی خود نگرانی کرتے ہوتے ہوئے باقاعدگی کے ساتھ ہفتہ وار اس حوالے سے بریفنگ لیتے ہوئے مہنگائی کاجائزہ لیں کیونکہ یہ حکومت کی اپنی گڈگورننس کا مسئلہ ہے جس پر عملدرآمد کرانا ان کی اپنی کارکردگی کیلئے اچھے نتائج کا سبب بنے گا۔

عوام اس وقت انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزاررہے ہیں اورانہوں نے بڑی امیدیں اورتوقعات موجودہ حکومت سے وابستہ کیں تھیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے جو وعدے کئے تھے ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہیں مشکلات سے نجات دلائے گی مگر عوام کو لینے کے دینے پڑ گئے اور تبدیلی کا خواب ان کے لیے ایک ناقابل برداشت عذاب بن گیاہے۔اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کیا پالیسی اور حکمت عملی اپنائے گی کہ عوام کو کم ازکم مہنگائی سے نجات دلاتے ہوئے اپنا کوئی ایک وعدہ پورا کرے۔