|

وقتِ اشاعت :   October 10 – 2020

بلوچستان وسیع تر صوبہ اور آبادی کے حوالے سے دیگرصوبوں کے مقابلوں میں کم آبادی پر مشتمل ہے اسی طرح ترقی کے لحاظ سے بھی بلوچستان سب سے پیچھے ہے حالانکہ بلوچستان کا ذکر جب بھی وفاقی سطح پر کیاجاتا ہے تو سی پیک سمیت یہاں کے ذخائر اور وسائل کو فوقیت حاصل رہتی ہے۔یہاں کے وسائل سے وفاق نے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا ہے جبکہ بلوچستان کو اس کے جائز حصہ سے محروم رکھا گیا ہے۔ اگر بلوچستان میں چلنے والے میگا منصوبوں اور سوئی گیس کی مد میں جائز رائلٹی اور واجبات کی ادائیگی کی جاتی تو شاید بلوچستان کا یہ نقشہ نہ ہوتا جو آج ہے۔

اور جس کا ذکر خود مرکزی جماعتیں کرتی رہتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں کی صوبائی حکومتیں صوبے کے حقوق کے لیے کسی بھی مصلحت سے کام نہ لیتیں اور جن کا وژن بلوچستان کو ترقی دینا ہوتا اور بلوچستان کے میگامنصوبوں سے ملنے والے محاصل وواجبات کیلئے وفاق کے سامنے بہتر انداز میں اپنا مقدمہ لڑتے مگر اسے المیہ ہی کہاجاسکتا ہے کہ خود یہاں کی صوبائی حکومتیں جو دہائیوں سے حکمرانی کرتی آرہی ہیں انہوں نے بلوچستان کی ترقی اور یہاں کے مسائل کے حوالے سے وفاق کے سامنے ٹھوس اور مضبوط حکمت عملی نہیں اپنائی جس طرح سندھ، کے پی کے اور پنجاب کرتے آئے ہیں۔

ایک مسئلہ بلوچستان میں مخلوط حکومت کا ہے جہاں پر ایک جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کرپاتی اور حکومت بنانے کیلئے مجبوراََ انہیں اتحادیوں کے شرائط کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں اور ان کے شرائط کی بنیاد پر وزارتوں کی بندر بانٹ سمیت فنڈز کی تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے یہ سب کے سامنے عیاں ہے کہ کتنے ادوار سے ایسے چہرے بلوچستان اسمبلی کی زینت بنے ہوئے ہیں جو پارٹیاں تبدیل کرکے حکمران جماعت میں شامل ہوتے ہیں کیونکہ ان کے اپنے گروہی وذاتی مفادات ہی حکمران جماعت میں شامل ہونے کی اہم وجہ ہے۔

جس کا اندازہ ان کے حلقوں کی حالت زار سے لگایا جاسکتا ہے۔بہرحال یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جو بلوچستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے چند اہم اقدامات یقینا قابل ستائش ہیں کہ اس نے کوئٹہ میں سڑکوں کی تعمیر، سیوریج نظام، پانی کی فراہمی جیسے اہم منصوبوں کا آغاز کردیا ہے اور ان علاقوں کو ترجیح دی ہے جہاں پر یہ مسائل انتہائی گھمبیر ہیں اور عرصہ دراز سے ان علاقوں کو نظرانداز کیا گیا تھا ان منصوبوں سے کوئٹہ کے پسماندہ علاقوں میں کافی بہتری آئے گی جس کے آثار اب نظربھی آنے لگے ہیں۔

بہرحال بلوچستان رقبہ کے حوالے سے ملک کا نصف حصہ ہے جبکہ آبادی منتشر ہونے کی وجہ سے مسائل موجود ہیں جہاں پر بنیادی انفراسٹرکچر سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے مگر اس کا اہم ترین حل کسی حد تک بلدیاتی نظام کا مؤثر ہونا ہے اگر مقامی حکومتوں کو مضبوط کرتے ہوئے انہیں فنڈز بغیر کسی رکاوٹ اور پیچیدگیوں کے مکمل اختیارات کے ساتھ دیئے جائیں تو بلوچستان کے بعض اضلاع کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔بدقسمتی سے ایم پی ایز ہر دور میں بلدیاتی نمائندگان کو بے اثر کرنے کیلئے رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔

اور براہ راست ان کے کاموں میں مداخلت کرتے ہیں جب تک بلدیاتی اداروں کو مضبوط نہیں کیاجائے گا مکمل اختیارات انہیں نہیں دیئے جائینگے بلوچستان میں بنیادی مسائل برقرار رہینگے۔ امید ہے کہ جب بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوگا اس کے بعد مقامی حکومتوں کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی تو انہیں مضبوط کرنے کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان کسی صورت سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرینگے تاکہ بلوچستان کے تمام علاقے یکساں طور پر ترقی کرسکیں۔