جناب خالد ولیدسیفی (جمعیت علما اسلام کے صوبائی نائب امیر،ضلع کیچ کے صدر اور حلقہ پی۔بی ۸۴ کے سابق امیدوار )نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں پاکستانی سیکولر(میرا خیال ہے کہ انہوں نے شعوری طور پر پاکستانی کمیونسٹوں کو چھیڑنے سے اجتناب کیا ہے) ذہنیت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تحریر کیا ہے’’۔۔۔دوسرا امر میرے لیے باعثِ حیرت و تشویش ہے کہ ماضی میں’’آگ بگولہ‘‘ کی روایات جسے ہمیشہ مذہبی حلقے کی شناخت بناکر پیش کیا جاتا رہا ہے،اب سیکولر حلقے کی شناخت بنتی جا رہی ہے۔امر جلیل کے معاملے میں جس رد عمل کا خدشہ مذہبی حلقے سے تھا۔
یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں رہا کہ عمران خان کو وزیراعظم بنائے جانا تھا اور انہیں بنا دیا گیا ’’ بے شک اللہ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے ‘‘ ذی شعوراور اہل ایمان بخوبی جانتے ہیں کہ ایٹمی تنصیبات کو سنبھالنے کے لئے نہ صرف ایک کثیر افرادی قوت کی ضرورت ہے بلکہ ایک مضبوط اور مستحکم مالیات بھی ناگزیر ہے جبکہ ان تمام ترجیحات کو ایک امن کے سہارے کی بھی ضرورت ہوتی ہے لہذاجب بیل ایک سینگ سے زمین کو تھام سکتا ہے تو ایک کالا باغ ڈیم ملکی مالیات کو کیوں نہیں؟
یار لوگ ملکی مقتدرہ کے بارے میں کچھ بھی کہتے ہوں لیکن اس کی چالاکی کی داد دینی پڑتی ہے کہ زرداری جیسے شاطر کو بھی بوتل میں ایسے اتار دیاکہ وہ اس کو اپنامسکن سمجھ بیٹھے ۔نیا پاکستان بننے جارہا ہے لوگ اس بات پر یقین کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں جبکہ ملکی مقتدرہ نے آدھا نیا پاکستان بنا لیا۔
یار لوگ مضطرب تھے کہ پاکستان میں جمہوری نظام کو چلنے نہیں دیاجاتا‘ہر دس سال بعد بوٹوں کی ٹاپ سنائی دے جاتی ہے اس خیال میں کمال اس وقت آجاتاہے کہ جب مقتدرہ کے باپ انگریز کے پالے پوسے جاگیر داری پلے یہ کہنے لگیں کہ’’ سیاسی قیادت کو جب موقع ہی نہیں دیا گیا تو سیاستدانوں کو موردالزام ٹھہرا کر ملک کی تمام سیاسی اور سماجی نا ہمواریوں ، نا انصافیوں اور خرابیوں کی ذمہ داریاں ان کے سر تھونپ دینا اس طبقے کے ساتھ سراسر نا زیادتی ہے ۔
دھاندلی دھاندلی کی شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی لیکن اگر اس قدر دھاندلی ہوتی تو چائے والا کیونکر کامیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچ جاتا؟ برطانیہ جسے جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے وہاں بھی مجال ہے کہ کوئی چائے والا کامیاب ہو کر دارالعوام میں پہنچ جائے۔