نصیرآباد ڈویژن بلوچستان کا کوئٹہ کے بعد گنجان آبادی کے حامل ڈویژنوں میں سے ایک ہے جس میں پانچ اضلاع، نصیرآباد، جعفر آباد، صحبت پور،جھل مگسی اور کچھی شامل ہیں۔ان اضلاع میں نصیرآباد اور کچھی دو ایسے اضلاع ہیں جہاں کبھی کبھی یا کسی طویل وقفے کے بعد کسی سیاسی حریف کو کامیابی ملتی ہے اور کم از کم پانچ سال صرف ان ہونے والی تبدیلی پر سیاست ہوتی رہتی ہے تاہم جعفر آباد،جھل مگسی اور صحبت پور ایسے انتخابی حلقے ہیں جہاں موروثی سیاست یا سیاسی جاگیر دار یا قبائلی نشست سمجھے جا تے ہیں۔ اوستہ محمد کی نشست پر ہمیشہ میر جان جمالی صاحب وزیر اعلیٰ، اسپیکر وزیر تک منتخب ہوتے رہے ہیں۔
Posts By: ولی محمد زہری
کورونا وائرس نے بلوچستان میں صحت عامہ کی سہولیات کا پول کھول دیا
کورونا وائرس نے تمام ترقیافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں صحت عامہ کی سہولیات اور اقدامات کا پول کھول دیا۔ بلاشبہ کورونا وائرس ایک خطرناک وباء کی صورت میں دنیا بھر میں متعارف ہوئی۔دنیا کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ممالک بھی کورونا وائرس کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور ثابت ہوئے ہیں پاکستان ایٹمی ممالک کی صف میں شامل ہے لیکن کورونا وائرس نے پاکستانی قوم کو ایک بہترین سبق دے دیا کہ بیماریوں اور وباء کے مقابلے کیلئے جدید لیبارٹیرز، ادوایات اور وینٹی لیٹرز کی جو ضرورت ہوتی ہے وہاں ایٹم بم اور میزائل کسی کام کے بھی نہیں ہوتے۔
بلوچستان کا عظیم منصوبہ کچھی کینال، وفاق کی عدم توجہی اور بلوچستان کے سیاسی قیادت کی چشم پوشی*
بلوچستان کو وفاق کی جانب سے ہمیشہ اور ہر دور میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی صوبہ پر وفاق کی وہ توجہ نہیں جس طرح باقی صوبوں پر دی جا رہی ہے۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں اب بھی انسان اور حیوان ایک ہی تالاب، جوھڑ، گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ اگر اس کو اس طرح کہا جائے کہ جدید دور میں بھی بلوچستانی عوام اور حیوان جہاں ایک ہی طرح کے تالاب سے اکٹھے پانی پیتے ہوں اور ان حیوانوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں وہاں صوبے میں صاف پانی کا حصول انتہائی جان جوکھوں کا ہے۔
بلوچستان کی معاشی شہہ رگ پٹ فیڈر کینال اور اس کی زبوں حالی*
پٹ فیڈر کینال بلوچستان کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یقینا اسی وجہ سے نصیرآباد صوبے کا گرین اور سرسبز و شاداب علاقہ کہلاتا ہے پٹ فیڈر کینال کی وجہ سے نصیرآباد میں معاشی نمو میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ پٹ فیڈر کینال کی وجہ سے مقامی لوگ زراعت سے وابستہ ہونے اور زرعی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور ساتھ ہی پٹ فیڈر کینال کی بدولت لوگ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت بلوچستان اگر پٹ فیڈر کینال پر خصوصی توجہ دے تو پٹ فیڈر کینال کے باعث بلوچستان خوراک اور گندم کے حوالے سے خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھی اضافی زرعی اجناس برآمد کرکے کثیر زرمبادلہ کما سکتا ہے۔
لاک ڈاؤن، آن لائن تعلیمی سہولیات اور حکومتی ذمہ داریاں *
بلوچستان کا رقبہ ملک کی 47 فیصد پر مشتمل ہے بدقسمتی سے بلوچستان ان 74سالوں میں وہ ترقی کی منازل حاصل نہ کر سکا جو کرنا چاہئے تھا اس کا ذمہ دار وفاق سمیت ہمارے ارباب اختیار منتخب نمائندے بھی ہیں۔ بلوچستان میں 18 ویں ترمیم سے پہلے ہمارا صوبہ ہر وقت اوور ڈرافٹ پر ہی چلتا تھا اور تنخواہ تک کیلئے وفاق کی منت سماجت کرتا تھا۔ 18 ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے تحت بلوچستان کو جو ترقیاتی فنڈز مل رہے ہیں وہ شاید ملک کے دیگر صوبوں کے ایم پی ایز کو نہ ملتا ہو بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے ہر ایم پی ایے کو چالیس سے پچاس کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز کی مد میں ملتے ہیں جبکہ فیڈرل پی ایس ڈی پی اس کے علاوہ ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کی نہ تو پسماندگی کا خاتمہ ہو رہا ہے اور نہ ہی صوبے کے عوام کی محرومیاں ختم ہو رہی ہیں۔
*بلوچستان میں پولیس اور لیویز کو سیاست سے پاک کرنے کا نادر موقع*
بلوچستان میں پولیس اور لیویز عوام کے تحفظ اور علاقائی امن وامان کی بہتری کے لئے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں نصیرآباد ڈویژن میں پولیس کے جوانوں کی عظیم قربانیاں ہیں اور صرف نصیرآباد میں 70 سے زائد جوانوں نے جام شہادت نوش کیا ہے ان میں ڈی ایس پی,انسپکٹر رینک سمیت دیگر جوان بھی شہید ہوئے ہیں جبکہ متعدد آفیسران مختلف حادثات میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ نصیرآباد ڈویژن میں پانچ اضلاع نصیرآباد، جعفر آباد، صحبت پور مکمل پولیس ایریا ہیں جبکہ جھل مگسی اور کچھی میں پولیس کے ساتھ ساتھ لیویز فورس بھی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔
راشن کی تقسیم اور انتظامیہ کی مرضی
کورونا وائرس کے دو ماہ سے زائد لاک ڈاون نے جہاں کاروبار زندگی کو متاثر کیا ہے وہاں مزدور تاجر پیشہ پرائیویٹ سکولزمیں کام کرنے والے اساتذہ مزدور طبقات,حجام میکینک ہارڈوئیر ہوٹلوں اور دکانوں پر کام کرنے والے مزدور، کولڈڈرنک کاسمیٹک سمیت دیگر روزانہ اجرت کرنے والے شدید متاثر ہونے والے افراد کورونا سے زیادہ بھوک سے خوفزدہ ہونے لگے ہیں اور اس لاک ڈاؤن کے دوران وہ نان فقہ کے ہی محتاج ہو گئے ہیں۔
نصیرآباد، بلوچستان کا گرین بیلٹ
نصیرآباد کئی وجوہات کے باعث بلوچستان کا انتہائی اہمیت کاحامل علاقہ ہے، صوبے کاگرین بیلٹ اور زرعی علاقہ ہے پٹ فیڈر کینال کی بدولت نصیرآباد کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ 1974میں نصیرآباد کو ضلع کا درجہ دیاگیا،اس وقت جعفر آباد صحبت پور بھی نصیرآباد کے حصے تھے 1987 میں جعفر آباد کو نصیرآباد سے الگ ضلع بنایا گیا، نصیرآباد کا ہیڈ کوارٹرہونے کے ساتھ ساتھ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بھی ہے اس شہر اورضلع کا اصل نام ٹیمپل ڈیرہ تھا، کیپٹن ایچ ایم ٹیمپل کے نام پر رکھا گیا ہے، جو کیریئر برطانوی سرکاری ملازم تھا، جس نے 1891 سے 1892 تک سبی کے پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔
اوچ پاور کا استحصالی کردار
اوچ پاور پراجیکٹ ڈیرہ مراد جمالی 1996 میں ملک میں بجلی کی کمی اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے ہی اس کا اپنے ہاتھوں سے سنگ بنیاد رکھااور اپنے خطاب میں اسے ملک اور صوبے بلخصوص نصیرآباد کیلئے ایک انقلابی منصوبہ قرار دیا تھا اور حقیقت میں اوچ پاور پراجیکٹ کا یہ عظیم منصوبہ بھی کسی انقلاب سے کم نہیں تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم بینظیر بھٹو صاحبہ نے اعلان کیا تھا کہ یہ اوچ کمپنی علاقے کو مفت یا ارزاں نرخوں پر بجلی فراہم کرے گی۔
نصیر آباد گرین بیلٹ اور محکمہ زراعت
نصیرآباد بلوچستان کاواحد ڈویڑن ہے جہاں دریائی پانی سے زمینوں کوسیراب کیا جاتا ہے اور ان علاقوں کی زرعی بہتری میں صوبے کے دو اکلوتے کینال پٹ فیڈر کینال اور کھیر تھر کینال ہیں پٹ فیڈر کینال دریائے سندھ سے گڈوبیراج کے مقام سے جبکہ کھیر تھر سکھر بیراج سے نکلتا ہے اور کافی فاصلہ طے کرکے نصیرآباد جعفر آباد جھل مگسی کے علاقوں کو آباد کرتے ہیں ان ہی دو کینالوں کی وجہ سے نصیرآباد سمیت دیگر دو اضلاع جعفرآباد اور جھل مگسی میں بھی لاکھوں ایکٹر آباد ہوتے ہیں بلوچستان میں دیگر علاقے ٹیوب ویل یابرساتی پانی پر آباد ہوتے ہیں نصیرآباد صوبے کاگرین بیلٹ ہے۔