بلوچستان یونیورسٹی کے اندر داخلے سے قبل شناخت کرانا لازمی ہے چند سال قبل ایسا نہیں تھا۔ داخلے کا وحدا ذریعہ مین گیٹ ہی ہوا کرتا تھا یہ گزرگاہ گاڑی اور پیدل چلنے والے دونوں کے لیے ہوا کرتا تھا جہاں سے بلا روک ٹوک سب داخل ہوتے تھے۔ یونیورسسٹی کے سبزہ زار پر بیٹھے طلبا کے درمیان چل رہی ڈسکشن اور موضوعات پر اسٹڈی سرکلز طلبا تنظیموں کے زندہ ہونے کی نوید سناتی تھی۔ یونیورسٹی کی درختیں طلباء تنظیموں کے جھنڈ سے مزین ہوا کرتے تھے۔ اسٹوڈنٹ داخلے کا مسئلہ ہو یا کہ ہاسٹل میں رہائش کا سیٹ اپ، کمان طلبا تنظیموں کے ہاتھ ہوا کرتا تھا۔
بھارت اپنی دیگر افواج کی ناکامی کی طرح اپنی بحریہ کی نا اہلی کو بھی آشکار کر رہا ہے اور پاکستان کے میری ٹائم اثاثوں کے خلاف زیر آب اور سطح آب پرجارہانہ عزائم کے ذریعے بحیرہ عرب کے ا من و استحکام کو غارت کرنے کے درپے رہتا ہے۔
تبدیلی کسی نعرہ بازی کا نام نہیں ہے بلکے یہ عمل سے ممکن ہوتی ہے مگر یہاں تو لوگوں پر آج کل تبدیلی کا کچھ ایسا نشہ چڑھا ہو اہے کہ ان سے کچھ بھی بات کریں تو وہ صرف یہی جواب دیتے ہیں تبدیلی آ گئی ہے، یہ سب سن کر سر پکڑ نے کو دل چاہتا ہے کہ عمران خان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے جو وہ آتے ہی سب ٹھیک کر دے گا کہ وہ چھڑی گھمائیگا اور پورا پاکستان نیا بن جائے گا اور سب کچھ بدل جائے گا مگر لوگوں کی باتیں سن کر تو یہی لگتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کیا ہے اس کے اثرات انسان کی ذاتی، سماجی اور معاشی حاالات پر کیسے پڑتے ہیں اس کا مطالعہ ہم مختلف کتابوں سے اور مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ موسم اپنا تیور کس طرح بدلتا ہے لوگوں سے ان کی زندگی کس طرح چھین لیتی ہے ایسے ہی موضوعات پر دستاویزی فلم اور فلمی خاکے بنائے جا رہے ہیں۔ ہندی سینما نے گزشتہ سال ایک فلم ’’کڑوی ہوا‘‘ کے نام سے بنائی تھی۔
عورت ہی عورت کی بد ترین دشمن ہے۔ یہ بات شاید سننے میں اچھی نہ لگے مگر جب میں نے عورت پر ہونے والے ہر ظلم کی داستان کو اس کے پس منظر کے ساتھ دیکھا تو میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ عورت ہی عورت کی اصل دشمن ہے۔
سرداروں، وڈیروں، نوابوں، جاگیرداروں کا علاقہ بھاگ ناڑی۔۔ کبھی سبی تو کبھی کچھی کے پلو باندھ دیا جاتا ہے کبھی رندبادشاہی کرتے ہیں تو کبھی ڈومکی قابض آتا ہے ۔یہ سلسلہ برسوں سے چلتا چلا آرہا ہے۔ ہرکسی نے قسمت آزمائے، تخت و تاج ان کے حصے میں آئے، خوش حالی نے ان کا دامن گھیرا مگر بھاگ ناڑی کی قسمت میں تبدیلی نہیں آئی۔ تبدیلی فقط لفظو ں تک محدود رہی۔
برادر اکمل شہزاد گھمن لکھاری ہیں براڈکاسٹر ہیں کتاب ’’میڈیا منڈی‘‘ کے مصنف ہیں۔ مہربان اور انسان دوست آدمی ہیں۔ جب اسلام آباد میں مقیم تھا تو کبھی ان کے ہاں محفلیں جمتی تھیں یا کبھی میرے پاس تو بلوچستان ضرور زیر موضوع آتا تھا۔ اب ان کا کوئٹہ آنا نہیں ہوتااور میں اسلام آباد جا نہیں پاتا تو فیس بک ہی واحد ذریعہ ہے جہاں اس کے پوسٹ دیکھ کر ان کی خیر خیریت کی خبر ہو جاتی ہے۔
آج کل جس طرح کے حالات چل رہے ہیں ایسے میں تو یہی لگتا ہے کہ مسکرانا منع ہے جس طرف دیکھو بری خبریں ہی سنائی دیتی ہیں ایسے میں بندے کی گھبراہٹ ہی نہیں جاتی اس ذمر میں میڈیا خاص اہمیت کا حامل ہے جنہوں نے ہر وقت سنسنی پھیلا ئے رکھنے کا عہد کر لیا اور اب تو یہ ٹرینڈ بن گیا ہے۔ایک چھوٹی سی بات کو اس طرح سنسنی خیز بنا دیا جاتا ہے کہ کیا کہیے۔ نیوز چینلز کی بات ہی مت کیجئے آپ خود ہی دیکھئے کہ جب بھی ٹی وی آن کریں اور نیوز چینل پر کریں تو کسی نہ کسی حادثے یا سانحے کی خبر ہی ملتی ہے ،معجزہ ہی ہوجاتا جب کوئی اچھی خبر سننے کو ملے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کے ساتھ کشیدگی حالیہ کشیدگی پر جس طرح قابو پایا ہے، سابق وزیر اعظم نواز شریف کوٹ لکھپت جیل کے اپنے کمرے میں اس پر ضرور حیرت کا اظہار کر تے ہوں گے ۔اس وجہ سے نہیں کہ وہ قومی سلامتی کی پالیسی میں اس یکسر تبدیلی کے خلاف ہیں بلکہ اس لیے کہ انھوں نے امن کے وہ اعزازات حاصل کرنا چاہے تھے جن کی اب عمران خان پر بارش ہو رہی ہے ۔
قدیم عمارت کے سامنے چار موٹر سائیکلیں کھڑی ہیں۔ کرسی پر بیٹھا نوجوان ایک شخص کی آمد پر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اس سے سلام و دعا کرتا ہے پھر بیٹھ جاتا ہے۔ آنے والا فرد ایک کمرے کے اندر داخل ہوجاتا ہے ہم بھی یہی عمل دہرا کر اس کے پیچھے پیچھے اسی کمرے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کمرے کے اندر مریضوں کا مجمع لگا ہوا ہے طبیب ایک مریض کو درد کا انجکشن لگانے میں مصروف ہے۔