انسانی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا کا سب سے پہلے علم( علم فلسفہ) ہے۔ کیونکہ ابتداء میں انسان نے ہر چیز دیکھی تو اس کے بارے میں غوروفکر کرنے لگا۔ کائنات کی ہر شے کے بارے میں انسان نے غور وفکر شروع کیا۔ابتداء میں انسان نے اشارتی زبان استعمال کی۔ کئی سالوں بعد بولنے لگا۔
بلوچی زبان کا شمار دنیا کی چند ایسی زبانوں میں ہوتا ہے جس میں ادبی حوالے سے بے شمار مواد موجود ہے۔ زبان کے فروغ کے لئے فوک داستان ،بلوچ زعماء ودانشور حضرات کی نادر ونایاب تحریریں اور بلوچی زبان کو دنیا میں اہم مقام دلانے اور زندہ رکھنے کے لئے ادبی لٹریچر اہم مقام رکھتا ہے۔ بلوچی زبان وادب کے لئے ہر فرد اور ادارہ اپنی اپنی کوشش میں مگن ہے۔
لاطینی امریکہ کے علاقے ایکواڈور میں 17اپریل کو آنے والے زلزلے نے ابتدائی رپورٹس کے مطابق 250کے قریب افراد کی جان لی ہے۔ جبکہ 500سے اوپر افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ زلزلے کی شدت 7.8ریکارڑ کی گئی جبکہ امریکی جیالوجیکل سروے کے مطابق جاپان، ایکواڈوراور ٹونگو میں آنے والے تمام زلزلے دراصل اس وقت فالٹ لائنوں پر آتے ہیں جو بحرالکاہل کے گرد موجود ہیں اسے آگ کا چھلا یعنی رنگ آف فائر کا نام دیا گیا ہے
جی آپ کہاں سے آئے ہیں کس سے ملنا ہے؟ بس وہ صاحب سے کام تھا۔ صاحب گئے ہوئے ہیں کسی میٹنگ میں آپ بعد میں آجائیے گا۔۔ اسسٹنٹ نے سوالی کو بے زاری میں جواب دیتے ہوئے کہا۔بیچارہ سوالی باہر بیٹھا کافی انتظار کرتا رہا اور صاحب کے بلند و بانگ قہقہے انکے کانوں سے ٹکرا تے رہے۔
ملکی تاریخ میں وطن عزیز کی سیاسی افق پر مطلع کھبی بھی صاف نہیں رہا بلکہ بارہا قہر آلود ،زہر آلود اور یہاں تک کہ خون آلود بھی رہا ۔ملکی حکمران طبقہ جو چند گنے چنے جانداروں پر مشتعمل ہے باریاں بدلتے رہے ہیں۔ سیاسی منظر نامہ پر نظر رکھنے والوں کو یہ تاریخی جملہ نہیں بھولے گا کہ اُدھر تم اِدھر ہم اور اب وقت کے ساتھ ساتھ اس مشہور جملے کو ذرا رد و بدل کے ساتھ یوں پڑھیئے کہ کھبی تم اور کھبی ہم ۔
ہر ملک اور ریاست میں مرکز پرست رویّے اپنی بالا دستی چاہتے ہیں ۔ تسلط کی مضبوطی ہی ان کی جمع پونجی میں اضافے کا باعث ہے ۔ خطے کی سلامتی اور ریاست کی طاقت کیلئے یہ ایک ضروری امر ہے کہ مرکز مضبوط اور مستحکم ہو لیکن یہ استحکام ملک /ریاست کی دیگر اقوام اور ثقافتوں کیلئے ان کے وسائل پر قبضہ ثابت نہ ہو ۔ وسائل پر غیر منصفانہ تقسیم محرومیوں کو جنم دیتی ہے اور یہی محرمیاں بغاوتوں پر اقوام کو اکساتی ہیں
ذریعہ معاش ہمیشہ سے انسان کی اولین ترجیح رہی ہے۔ معاش کے حصول کے لئے انسانوں نے ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کا راستہ اپنا یا ہے۔ کراچی کی لاکھوں والی آبادی اب کروڑوں میں حساب کی جاتی ہے اسکی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ لوگ دیہاتوں سے شہروں کی طرف معاش کے حصول کے لئے منتقل ہو گئے ہیں جہاں انکا روزگار وہیں بود و باش ۔ کون اپنی بچپن کی یادوں کو چھوڑ کر شہر جانا چاہتا ہے۔
میرے سامنے اس وقت سوشل میڈیا پر دو تصاویر گردش کرتی نظر آرہی ہیں پہلی تصویر بارکھان کے جیل میں بند ایک اسکول ٹیچر ’’مہربان‘‘ کی ہے جسے اس جرم کی پاداش میں سلاخوں کے پیچھے بند کیا گیا ہے کہ مجرم اسکے رشتہ دار ہیں۔ بارکھان کے مقامی صحافی ظفر کھیتران کا کہنا ہے کہ’’ مہربان‘‘ گورنمنٹ ہائی اسکول عیشان بارکھان میں بطور جے وی ٹیچر تعینات ہے۔
برق رفتار ، جدید سروس اور تمام تر سہولیات کے باوجود آخر کتابیں کیوں اہم ہیں۔ آج بھی پڑھا لکھا طبقہ کتابوں کے بغیر اپنی زندگی کو ادھورا ہی تصور کرتا ہے۔ کتابوں سے استفادہ کرنا اور ان کو گھنٹوں گھنٹوں پڑھنا یقیناًکتاب سے قاری
میرے دوست جب بھی مجھ سے ملتے ہیں تو انکے زبان پر یہ جملہ ضرور آجاتا ہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے شبیر تو دیکھے گا تو میں انکو عرض کرتا ہوں کہ شبیر نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے تو ان کے ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ جھلک اٹھتی ہے۔ سفر تو بہت کم کرنا پڑتا ہے لیکن جب سفر ہوتی ہے