پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا مرکز بلوچستان کی ساحلی پٹی سے سندھ کی ساحلی پٹی پر منتقل کرنے کے بعددنیا کی نظریں اس خطے پرلگ گئی ہیں۔ساحلی پٹی کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔ دنیا کے سرمایہ کاروں نے گوادر سے کراچی میں سرمایہ کاری کے لئے دوڑیں لگانی شروع کردی ہیں تاہم وفاقی حکومت کے پاس کراچی کے انڈیجینس لوگوں کے معاشی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے کوئی پالیسی موجود نہیں ہے۔ معاشی مسائل کے عدم حل کی وجہ سے انڈیجینس لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کراچی میں انڈیجینس لوگوں میں بے روزگاری اور غربت ایک اہم مسئلہ ہے۔ کراچی میں ساٹھ فیصد رقبے پر وفاقی اداروں کا اختیار ہے۔ جہاں انڈیجینس لوگوں کی حصہ داری آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ اگر سی پیک میں بھی انڈیجینس لوگوں کو حصہ نہیں دیاگیا، انہیں روزگار سمیت دیگر معاملات سے دور رکھاگیا تو سندھ میں امن وامان کی صورتحال مزید ابتر ہوگی۔ ویسے بھی سندھ میں انسرجنسی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سندھ عسکریت پسندی کی جدوجہدکی ایک طویل تاریخ رکھتاہے۔
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ آج کل بلوچستان کی سیاست میں خاصی اہمیت حاصل کرچکے ہیں، اس اہمیت کی وجہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں گوادر کے شہر میں پے در پے جلسے، جلوس، دھرنے اور مارچ ہیں۔ مولانا کا تعلق پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت (جماعت اسلامی ) سے ہے۔ماضی میں جماعت اسلامی کو بلوچستان میں وہ پذیرائی نہ مل سکی جو مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں حالیہ دھرنوں کی وجہ سے ملی ہے۔ اس پذیرائی کی وجہ مولانا کا جماعت اسلامی کی بنیادی پالیسیز اینٹی قوم پرست نظریات سے یکسر مختلف ہوناہے کیونکہ جماعت اسلامی جن نظریات کی روز اول سے نفی کرتی آرہی تھی مولانا نے بلوچستان میں اسی سوچ کو اپناتے ہوئے پارٹی پالیسیز کی سیاست سے ہٹ کر کام کیا اور اس حکمت عملی کا خاطر خواہ فائدہ بھی اٹھا چکے ہیں۔
اس وقت بلوچستان بالخصوص مکران کے عوام چند ایسے مسائل سے دوچار ہیں جوہمارے حکمرانوں اورریاست کی پیداکردہ ہیں۔مکران کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش ایران کے بارڈر سے وابستہ ہے لیکن اب اس ذریعہ معاش کو بند کر دیاگیاہے۔ ٹرالر مافیا گوادر کے لوگوں کی حق تلفی کررہاہے، بلوچستان میں جگہ جگہ چیک پوسٹ نظر آتے ہیں اس کے باوجود دن بدن واردات میں اضافہ ہوتا جارہاہے ، یہ سب صرف اور صرف عوام کو تنگ کرنے کے بہانے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک ملک سے دوسرے ملک میں جارہے ہیں ‘ روک کر پوچھا جاتاہے کہ “کہا ں سے آرہے ہو اور کہاں جارہے ہو” ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہم مقبوضہ علاقے میں ہیں۔ یہاں کے لوگ کئی مسائل سے دوچار ہیں۔ ان سب مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمن نے ایک تحریک کا آغاز کیا جو “حق دو گوادر” کے نام سے ہے۔
بلوچستان کے بیشتر سیاسی نمائندے جو کراچی ڈیفنس یا کوئٹہ میں اپنے بنگلوں میں رہتے ہیں، انکے ڈائننگ روم کی آرائش و سجاوٹ میں سب سے زیادہ توجہ shelf Wineپر دی جاتی ہے، وہ اس کمرے کی ہر چیز باہر پھینک سکتے ہیں جیسے الماری، صوفہ،ٹی وی، فریج وغیرہ لیکن اس وائن شیلف کے ساتھ ایسا برتاؤ ہرگز برداشت نہیں کر سکتے، اور ہر ممبر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا انکے وائن شیلف کی برابری نہ کر پائے۔مانو یہ وائن شیلف ان بنگلوں کا دوسرا جھومر ہے۔وہ اس شیلف میں بہترین برانڈز کے رنگ برنگی بوتلیں سجاتے ہیں اور جام چھلکاتے ہیں بلکہ محفل میں چراغاں کرتے ہیں۔
ملک کے بیشتر شہروں میں پیٹرول پمپس بند ہونے کی وجہ سے شہری رُل گئے، گزشتہ شب سے ہی پیٹرول پمپس مالکان نے اپنے پیٹرول پمپ بند کردیئے تھے جبکہ یہ دعویٰ بالکل غلط ثابت ہوا کہ پیٹرول پمپس بندش پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی جبکہ تمام مرکزی شہروں کی اہم شاہراہوں پر کمپنیز کے پیٹرول پمپس بندہیں، کوئی کارروائی عمل میں نہیںلائی گئی نہ ہی کسی پیٹرول پمپ کو سیل کیا گیا ،ماضی کی طرح یہ بھی ایک دعویٰ ہی ثابت ہوا۔ اس تمام تر صورتحال میں غریب عوام کو ہی سزابھگتنا پڑرہا ہے جو پہلے سے ہی مہنگائی کے ہاتھوں ذہنی اذیت میںمبتلاہیں مگر بحرانات ہیںکہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔پیٹرولیم ڈیلرزایسوسی ایشن نے ملک بھرمیں ہڑتال کردی ہے صرف ایمبولنسز کو پیٹرول مہیا کرنے کافیصلہ کیا گیا تھا مگر ایمبولینسز کو کہاں سے پیٹرول دستیاب ہوگا جبکہ تمام پیٹرول پمپس بند پڑے ہوئے ہیں ۔
تنظیموں کو شخصیات بناتی ہیں۔ وہی تنظیمیں معاشرے میں اشخاص بناتی ہیں۔ تنظیم سازی اور شخصیت سازی کا رشتہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزم ہوتا ہے جس سے معاشرے میں ایک شعوری عمل شروع ہوجاتا ہے۔ فرد کا معاشرے کے ساتھ ایک کمٹمنٹ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ بلوچ معاشرے کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ انہیں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی طلبہ تنظیم مل گئی ہے۔ بی ایس او نے بلوچستان میں ایک سیاسی ڈھانچے کو تشکیل دیا۔ اس سیاسی کلچر نے سیاسی ورکرز پیدا کئے۔بی ایس اواپنے قیام سے لیکراب تک بلوچ تحریک کا ہراول دستہ اور بلوچ سیاست کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
جام خاندان اپنی مصلحت پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے ہمیشہ اور ہر دور میں اقتدار میں رہاہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو اس میں شامل ہوئے، جب (ن) لیگ کی حکومت بنی تو (ن) لیگ میں شامل ہوکر اقتدار کے مزے لیتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کا آمرانہ حکومت کا حصہ بنے۔ جمہوری اور غیر جمہوری سب کا ساتھ دیا کیونکہ ان کے پاس اپنا کوئی سیاسی اور نظریاتی اصول نہیں ہے۔ ان کا اصول صرف اقتدار حاصل کرنے کا اصول رہا ہے یہ کبھی تصادم میں نہیں گئے اور نہ ہی اپنے عوام کی خاطر قیدو بند کی اذیتیں جھیلیں۔لسبیلہ کی مقامی آبادی کو اپنی اطاعت گزاری، تعریف و توصیف پر لگا دیا اور تابعداری کے گْر سکھائے۔
ناہمواربھیڑ۔۔۔۔۔۔سڑک پر۔۔۔۔اورلوگوںکے دماغوںمیں،خیال اورواہموںکی صورت میں،زندگی کی علامت کے طورپرچلتارہتاہے۔۔۔بھیڑاَن دیکھے قانون کاپابندہوتاہے اُسے محض صوت سے نسبت ہے ٹھوس وجوداورحکم دینے والا مجسم فردجسے شناخت بھی حاصل ہو،بھیڑکوفوری نوعیت کاکوئی حکم نہیںدے سکتا۔۔۔بھیڑیااژدہام ۔۔۔۔متواتردن کی روشنی اوررات کے دورانیے میں۔۔۔لیکن سڑک پریہ ناہمواربھیڑعشاء کے اذان اورنمازکے بعداورپھیلتا جاتاہے مگرجوان ہوتی رات کی کُھلتی زلفوںکی خوشبوئیںاس کے تنفس پرحملہ آورہوجاتی ہیںاوریہ بھیڑ۔۔۔جس میںموٹرکاریںزیادہ دلآویزوجودرکھتی ہیںآہستہ آہستہ لاپتہ ہوتی جاتی ہیںجیسے خوبصورت بلوچ نوجوان خوابوںکے ریوڑوںکوہانکتے ہانکتے سرسبزچراگاہوںکے سرابوںمیںاترکردن کے ستارے بن جاتے ہیں۔۔۔اورخوابوںکے ریوڑواپس بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے الائوجلائے خوب صورت بلوچ نوجوانوںکے زانوںپرسرٹیک کراپنے گدڑیاکاانتظارکرتی ہیں۔۔۔رات پھرحملہ آورہوتی ہے ۔فصیح اورسہیل سراب میںاترگئے۔
ٹراٹسکی کا کہنا تھا کہ طلباء درختوں کی بلند ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں جو آنے والے انقلابی طوفانوں میں سب سے پہلے جھولنے لگتی ہیں اوران انقلابی ہواؤں کی آمد کا پیغام دیتے ہیں۔ طلبہ اپنی اس نسبتاً آزادانہ کیفیت میں سماجی حرارت کا بیرومیٹر ہوتے ہیں اور معاشرے کی تہوں میں چلنے والی کیفیات اور عوامل کی غمازی کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا جملہ آج کل اس حد تک عام و خاص کی زبان پر ہے کہ گویا یہاں سب کے حقوق مارے گئے ہیں۔ ہوسکتاہے کہ یہ اندازہ غلط بھی نہ ہو، کسی کو اس کا حق نہ دینا یا حق کے حقیقی حصہ سے کم دینا بھی حق تلفی ہے، اسی طرح کسی کو اس کی حیثیت اور حصہ سے زیادہ دینا بھی حق تلفی ہے۔ یہ نعرہ اب ایک نعرہ نہیں اظہار غم و الم کا نعرہ بن چکا ہے جو ملک نیک مقاصد کے لئے بنایا گیا تھا ،شاید اس کی خمیر میں کچھ پلید مٹی شامل ہوگئی تھی اس لئے پون صدی عمر پانے کے باوجود پرنالہ اپنی جگہ جوں کا توں بر قرار ہے ۔