ابن آدم ہے تو تو بنت آدم ہوں میں “

| وقتِ اشاعت :  


کہیں تیزاب گردی تو کہیں آگ میں جلانا ، کہیں مارنا پیٹنا اور کہیں عزت کے نام پر قتل، شاید اب تو لوگ اس کے عادی ہو گئے ہیں ۔عزت کے نام پر قتل تو ہماری ثقافت کا حصہ ہے جس پر نہ کوئی قانون کام کرتا ہے اور نہ سماج۔اور سب سے اعلٰی بات تو یہ ہے کہ یہ حق صرف مرد کو حاصل ہے ۔کیونکہ ساری کی ساری عزت مرد کی ہے عورت کی تو کوئی عزت ہے ہی نہیں۔



تجاوزات کے خلاف اپریشن:تباہی ہی تباہی

| وقتِ اشاعت :  


گزشتہ چند ماہ میں تجاوزات ہٹانے کے نام پر کیئے جانے والے آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لو گ بے روزگار اور بے گھر ہو گئے ہیں۔صرف کراچی شہر میں ہزاروں کی تعداد میں دکانیں اور گھر گرا ئے جا چکے ہیں اور نتیجہ میں پانچ لاکھ سے زائد افراد روزگار سے محروم ہو چکے ہیں۔پاکستان بھر کی بڑی شاہراؤں کے دونوں اطراف کا رقبہ ہائی وے محکمہ کی ملکیت ہوتا ہے۔ اسی طرح نہروں کے ساتھ سینکڑوں فٹ رقبہ محکمہ انہار کی ملکیت ہے۔ 



دریجی میں غربت کیوں ہے؟

| وقتِ اشاعت :  


لسبیلہ کا علاقہ دریجی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے حوالے سے شہرت کا حامل علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ بھوتانی برادران کا انتخابی حلقہ اور آبائی علاقہ ہے۔’’ تیرے پیار کے چرچے ہر زبان پر‘‘ کے مصداق دریجی کی ترقی کے چرچے ہر زبان پہ سنتے اور ٹی وی چینلز کی رپورٹوں میں دیکھتے چلے آرہے تھے۔ دریجی کے خوبصورت مناظر ٹی وی اسکرین پہ دیکھ کر اور رپورٹرز کو اس کی خوبصورتی کے گن گاتا ہوا دیکھ کر دریجی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی چاہ پیدا ہوئی تھی۔



’’اے چارہ گراں کچھ اس کا بھی علاج ہے کہ نہیں‘‘

| وقتِ اشاعت :  


قارئین !وہ کونسا شخص ہے جوکہ’’ چاگئے ‘‘(چاغی) نام سے آشنائی نہ رکھتاہو۔یوں تو اسے ہرلحاظ سے حقیقی طورپرسونے کی چڑیاجیسے لقب سے نوازاگیاجس سے کوئی انکاری نہیں۔صوبہ بلوچستان کے چاغی جس کے راسکوہ کے پہاڑوں نے 28مئی 1998دوپہر3;28منٹ پرکالی چادراوڑھتے ہوئے ایٹمی تجربات کواپنے سینے میں سموکرارض پاک کوناقابل تسخیربنادیا۔



گوادر کے ماہی گیر چاہتے کیا ہیں؟

| وقتِ اشاعت :  


گوادر کے ماہی گیر آخر چاہتے کیا ہیں نوبت کیوں آن پڑی سمندر کے بجائے سڑکوں کا رخ کرنے کی۔ کیا سمندر ان کی نہیں سن رہا تھا یا وہ سنانے سے قاصر تھے۔ سمندر کی موجوں سے کہیں انہیں شکایت تو نہیں تھی اگر شکایت تھی تو شکوہ سمندر سے کر لیتے موجوں سے نمٹ لیتے نہ جانے انہیں کیا سوجھی کہ انہوں نے سڑکوں کا انتخاب کیا۔



سی پیک کے تناظر میں

| وقتِ اشاعت :  


ہر گزرتے دن کے ساتھ پاک چاہنہ کوریڈور سے جڑے کچھ اچھی کچھ بری خبریں سننے کو ملتی ہیں لیکن ہم نے کبھی اس سے جڑے دیگر عوامل کو پرکھنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ ہمیں صرف سی پیک سے جڑے اچھی خبروں کی دھند میں محصور کردیا گیا تھا لیکن چوں چوں وقت گزرتاگیا لوگوں نے اس میں دلچسپی لینا شروع کی ۔



کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی تبدیل ہو رہی ہے؟

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان کی طرف سے افغان طالبان رہنماؤں کو بالآخر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ کرنے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے امید کی کرن نظر آئی ہے۔امریکا کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان رہنماؤں کے درمیان مذاکرات18 دسمبر کو ابو ظہبی(متحدہ عرب امارات) میں ہوئے۔ پہلے یہ بات چیت دوحہ میں طے تھی مگر قطر اور خلیجی ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے مقام تبدیل کر کے ابو ظہبی کا چناؤ کیا گیا۔پاکستان متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو مذاکرات میں شامل کرنا چاہتا تھاکیونکہ طالبان کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیں اور یہ دونوں ملک افغان طالبان کی کچھ مالی مدد بھی کرتے ہیں۔یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے حقانی گروپ کو سامنے بٹھا کر اس سے بات چیت کی،حالانکہ اقوام متحدہ کی طرف سے انھیں دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔



بلوچستان کا ڈاکٹر خالد سہیل کون؟

| وقتِ اشاعت :  


ڈاکٹر خالد سہیل ایک محسن ہیں جب سے ان کی تحریروں سے واسطہ پڑا ہے۔ تب سے ہم اُ ن کے گرویدہ ہو گئے ہیں ۔ڈاکٹر خالد سہیل کے نام سے میں پہلے انجان تھا جب سے ’’ہم سب‘‘ نے اپنا دروازہ کھولا تو بہت سے لکھاری سامنے آئے، لکھاریوں کی فہرست میں ڈاکٹر خالد سہیل کا نام سب سے اوپر آیا۔ ڈاکٹرصاحب کی تحریروں نے مایوس افراد کی زندگی میں جان ڈال کر ان میں امید کی کرن پیدا کی۔ کینیڈا میں مقیم انسان دوست یہ شخص کینیڈا سے باہر مقیم نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کا علاج اپنی تحریروں کے ذریعے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب وہی کام کر رہے ہیں جو پاکستان میں مقیم معالج فیس لے کر بھی نہیں کر پاتا۔



‘‘سوال کی قوت ‘‘

| وقتِ اشاعت :  


’’سوال ہی جواب ہیں،جو سوال کرتا ہے، وہ جواب سے گریز نہیں کر سکتا۔‘‘ تم جانتے ہو ہمارے اندر موجود یقین کی قوت کس طرح ہمارے فیصلوں،اعمال،قسمت اور ہماری زندگیوں کی سمت پر اثرانداز ہوتے ہیں اور یہ سب اثرات سوچ کی پیداوار ہوتے ہیں۔سوچ سے مراد ہے ہمارے ذہن کا ساری زندگی کے دوران معانی کی قدر پیمائی کرنے اور معانی تخلیق کرنے کا انداز۔چنانچہ ہم روزانہ کس طرح اپنی حقیقت کو تخلیق کرتے ہیں اور اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح سوچتے ہیں؟



زندگی کی گاڑی چلتی رہے

| وقتِ اشاعت :  


آپ سے کوئی سوا ل کرے کہ آپ نے کبھی بس کا سفر کیا ہے؟ تو آپ کا جواب ہاں میں ہی ہوگا لیکن پوچھا گیا سوال آپ کو انتہائی غیرضروری لگے گا۔ اگر یہی سوال زندگی سے متعلق کیا جائے تو آپ یادوں کے جھروکوں میں چلے جائیں زندگی کا آغاز آپ نے کب اور کیسے کیا تھا بے سروسامانی کے عالم میں کہاں کہاں سفر کرتے رہے کیا کھویا کیا پایا بس پھر آپ کا وقت یادوں کا خزانہ چھان مارنے میں گزر جائے۔