الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں دو دہائیوں میں دو ہزار اَرب ڈالر کے عسکری اخراجات کیے۔ اس کے باوجود امریکہ کو افغانستان سے آبرومندانہ انداز میں بھاگنے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے۔ طالبان کے ساتھ قطر میں ہونے والا معاہدہ دراصل امریکہ کی جانب سے اعتراف شکست تھا۔ وہ تمام تر مقاصد میں بُری طرح ناکام ہوئے۔ نہ تو وہ اسلامی بنیاد پرستی کا خاتمہ کرسکے، نہ افغانستان کی تعمیر نو اور نہ ہی ایران، روس اور چین کو قابو کر سکے۔ طالبان کے ساتھ ہونے والے تمام تر مذاکرات کے دوران اشرف غنی کی حکومت کو امریکہ نے اس سارے عمل سے بے خبر یا دور رکھا جو امریکیوں کی بیس سال میں تعمیر کی گئی افغان حکومت کے بارے ان کے حقیقی رویوں اور وقعت کی غمازی کرتا ہے۔کیونکہ ان کو افغان حکومت کی حیثیت اور طاقت کا پتہ تھا۔
تقریباً ایک سال پہلے افغانستان میں اشرف غنی کی مغربی حمایت یافتہ حکومت شرمناک انداز میں ڈھے گئی اور طالبان کابل میں داخل ہوئے۔ 2001ء میں افغانستان پر حملے اور طالبان کی حکومت کو ختم کرکے بیس سال کی بے تحاشا عسکری اور دیگر اخراجات اور امریکی سامراج اوران کے اتحادی مغربی ممالک کی حمایت سے شروع کیا جانے والا جمہوری تجربہ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ نام نہاد جمہوری ریاست جس کی قیادت کی باگ ڈور تمام تر سابقہ جرائم پیشہ جہادیوں کے ہاتھوں میں تھی اور جس پر مغربی دنیا جمہوریت، انسانی حقوق اور خواتین کی خود مختاری کے نام پر ناز کرتی تھی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔
ظلم کی مزاحمت انسان ہی نہیں ہر جاندار کی فطرت کا حصہ ہے۔ معمولی چیونٹی کو بھی تکلیف پہنچانے، ہلاک کرنے یاراستے سے ہٹانے کی کوشش کی جائے تو وہ مزاحمت کرتی ہے۔ افراد کی طرح قوموں کی بقا کا انحصار بھی مظالم کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ ہر ظالم مظلوموں سے مکمل خود سپردگی کا تقاضا کرتا ہے اور اْس سے کم پر راضی نہیں ہوتا۔ لیکن ظلم و سفاکیت کے مقابلہ میں خود سپردگی کا رویہ اختیار کرنے والی قوم کا مقدر یہی ہوتا ہے
گزشتہ چار پانچ مہینوں سے پورے مکران میں ایرانی تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے تمام لوگوں کو متاثر کیا ہوا ہے۔عالمی سطح پر ڈالر کے اْتار چھڑاؤ کی وجہ سے پاکستانی تیل کی قیمتوں میں جونہی اضافہ ہوتا ہے ایرانی تیل کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں یا بڑھائی جاتی ہیں
8اگست 2016ء ، بلوچستان کے سب سے بڑے اور مرکزی شہر صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کے بیچوں بیچ سول سنڈیمن ہسپتا ل میں پیش آنے والا ایک خونیں واقعہ جسے آج چھ برس پورے ہورہے ہیں۔آج ہی کے دن کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر اور ملک بھر خون آلود اداسی غم اور سوگ میں ڈوب گیا تھا۔جب ’’خون خاک نشیناں رزق خاک‘‘ ہوا۔ایک ایسا دن جب صوبے کا شاید ہی کوئی ایسا ضلع یا قصبہ ہو جس میں کوئٹہ سے تابوت نہ بھیجاگیا ہو۔ روشنیوں کے شہر کراچی اور کوئٹہ سے اندرون بلوچستان تابوت بھجوانے کی روایت کوئی نئی نہیں۔ کافی عرصے سے یہ سب ہوتا رہا ہے۔ اندھے واقعات ، بہرے حکمران اور کمزور حافظوں کے حامل معاشروں میں ایسا ہونا کوئی انہونی بات بھی نہیں۔مگرآٹھ اگست کو تو حد ہی ہوگئی۔اس دن شاید ہی یہاں ایسی کوئی آنکھ بچی ہو جو اشکبار نہ ہوئی ہو۔ایک ایسا دن جب دن دیہاڑے شب خون مارا گیا ،جب عقل و شعور کی ایک کھڑی فصل پل بھر میں کاٹ دی گئی جب60گھروں کے روشن چراغ بجھا نے کے لئے ایک ایسی باد صر صر چلی کہ سب کچھ دھندلا دھندلا دکھائی دینے لگا۔ صوبے کے مرکزی شہر اور دارلحکومت کوئٹہ کے وسط میں قائم صوبے کا قدیم سول سنڈیمن ہسپتال اس وقت معصوم انسانوں کے مقتل میں بدل گیا جب بلال انور کاسی کی میت لینے کے لئے ہسپتال آئے وکلاء اور ان کی کوریج کے لئے موجود صحافیوں کے بیچ ایک زور دار دھماکہ ہوگیا۔
آج آٹھ اگست ہے۔ یہ وہی تاریخ ہے جب2016ء میں اس دن وہ سانحہ پیش آیا جس کے دیئے ہوئے زخم ہمیشہ تازہ رہیں گے اور ان سے وابستہ تلخ یادوں کاسلسلہ بھی کبھی ختم نہیں ہوگا۔یہ وہ دن ہے جب کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ایک ایسے واقعہ رونما ہوا جو صرف پشتون بلوچ ہی نہیں بلکہ کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کی تاریخ میں ایک خونیں باب کی حیثیت سے ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یو ں تو بلوچستان کا ہر مہینہ اب ہم کو پشتون بلوچ شہداء کی یاد دلاتا ہے لیکن خاص طور پر اگست کے مہینے میں یہ یاد اور شدید ہوجاتی ہے 12اگست 1948کو بابڑہ میں فخرافغان باچاخان کی خدائی خدمت گار تحریک کے نہتے اور پرامن جلسے پر فائرنگ کرکے خونی باب رقم کیا گیا باچاخان نے اس روز اپنے چھ سو ساتھیوں کی لاشیں اٹھائیںتب سے اب تک ہر سال اگست کے مہینے میں بابڑہ کے شہیدوں کی یاد منائی جاتی ہے یہاں بلوچستان میں 26اگست 2006کو سابق گورنراور جے ڈبلیو پی کے سربراہ نواب اکبر بگٹی کو 79سال کی عمر میں ایک آپریشن میں شہید کیا گیا اور اب 8اگست 2016کو سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش حملے کے ذریعے خون کی ہولی کھیلتے ہوئے 80وکلاء و عام شہریوں کو شہید کیا گیا
پا کستان بننے کے جلدبعد اقتدار پرسیویلین اور ملٹری بیورو کریسی نے قبضہ کیا تھا۔بیورو کریسی اس وقت بھی اتنی طاقتور تھی جتنی کہ آج ہے ۔اسکا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بانی پا کستان محمد علی جناح کے چند اہم تقار یر ا ن کی زندگی میںسنسر ہوئے۔اس وقت بیوروکریسی کی اکثریت ہندوستانی مہا جروں اور پنجاب سے تھی ۔مشرقی پا کستان جسکی آبادی مغربی پا کستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ تھی کی بیوروکریسی میںنما ئندگی نہ ہونے کے سبب شروع سے محرومی کا شکار ہوئی۔25 سال تک نہ تو صحیح معنوں میں الیکشن ہوئے اور نہ آ ئین بن سکا۔ آخر کار 1970 میں جنرل یحییٰ خان نے ملک کی تاریخ میں پہلے آزادانہ اور غیر جا نبدارانہ الیکشن کرائے ۔ شیخ مجیب ا لرحمن کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی تمام نشستیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔
حالیہ طوفانی بارشوں میں انگریزوں کے بنائے ہوئے پلوں میں سے ایک بھی نہیں ٹوٹا جبکہ اس ملک کے انجینئرز ٹھیکیدار منشی نمازی مولانا صاحبان وزیروں سرداروں کے لاڈلوں کے بنائے ہوئے سب پل پانی برد ہو گئے ہیں آخر کیوں۔۔۔۔؟ یہاں پر یہ سوال تو بنتا ہے۔۔۔.؟ انگریز انجینئرز نے جدید ٹیکنالوجی کے بغیر کامیاب پلیں بنائی تھیں جبکہ ہمارے دور کے تمام جدید ٹیکنالوجی کی بنی پلیں ناکارہ آخر کیوں ہوگئی ہیں۔۔۔؟ آخر ان سوالوں کا جواب کن لوگوں کے پاس ہے یہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ ۔۔۔۔کہاں ہیں وہ تمام پاکستانی حکمران۔۔۔۔۔؟ کہاں ہیں اس ملک کے نمائندے۔۔۔؟ کہاں ہیں اس ملک کے ایم پی اے ایم این جو پل تعمیر کرنے کے دوران بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ یہ پلیں سو سال تک چلیں گی۔ جو صرف ایک بارش میں ہی بہہ گئیں۔ اس وقت پورے بلوچستان میں چودہ سے زائد بڑے پل منہدم ہوچکے ہیں آخر کیوں۔۔۔؟ اس وقت کراچی کوئٹہ پل تاحال نہ بن سکا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ گھروں میں پھنس گئے ہیں آخر کیوں۔۔؟ سی پیک روڈ خضدار ونگو کا پل جو چینی کمپنیوں نے بنایا تھا وہ بھی تباہ ہوکر سیلاب برد ہوگیا تاحال وہ بھی نہ بن سکا ہے آخر کیوں۔۔۔؟ پورے بلوچستان کو ملانے والی مین شاہراہیں حال بند پڑی ہیں اس وقت بلوچستان میں آمد و رفت کا نظام درہم برہم چکا ہے آخر کیوں۔۔۔؟ زمینی راستے برباد ہو گئے گھروں کے چھت گر کر تباہ ہوگئے۔
عام فکری مغالطہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ دنیاکے نامور مورخین اور فلاسفر اس بات پر اختلاف رائے رکھتے ہیں لیکن یہ بات کافی حد تک درست ثابت ہوئی ہے۔ بلوچستان کے حالات تو سو فیصد تاریخ کی عکاسی کشی کرتے ہیں۔ تاریخ کے اورق پلٹئے، آپکو بلوچستان میں برطانوی سامراج کی طرزِ حکومت آج بھی رائج ملے گی۔
وہ ایک نوجوان تھا لیکن اس کی رگوں میں خون بجلی کی طرح دوڑتا تھا۔ اس نے اسلامی فتوحات کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ جس شہر کو نامور سپہ سالاروں نے فتح کرنے کی بے شمار تگ و دو کی، لیکن شہر کو فتح کرکے اس کے اندر داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مسلمان سات سو سالوں سے اس شہر کو فتح کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔