معدنی دولت سے مالا مال بلوچستان کے رخشان ڈویژن کو پیاس نے ہلکان کردیا ہے۔انسان توکجا جانور بھی دم توڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ہر طرف پیاس نے ڈیرہ ڈالا ہے۔ لوگ بوند بوند پانی کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کے ہر ڈویژن میں اپنی نوعیت کی پوٹینشلز موجود ہیں لیکن رخشان ڈویژن نہ صرف بلوچستان کے دیگر ڈویژن سے امیر ترین ہے بلکہ یہ خطہ دنیا کے امیر ترین خطوں میں سے ایک خطہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف ریکوڈک کے مقام پر 70 مربع کلومیٹر علاقے میں 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ تانبے کے یہ ذخائر چلی کے مشہور ذخائر سے بھی زیادہ ہیں۔یہاں سونے کے ذخائر کی مالیت 100 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔
سی پیک دنیا کا واحد عظیم منصوبہ ہے جو پاکستان کے ذریعے چائنا دنیا کو جوڑ رہا ہے پوری دنیا اسی عظیم پراجیکٹ کے تحت ون روڈ ون بیلٹ سے منسلک ہو کر تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کا محور بنتا جا رہا ہے۔ گوادر دنیا کا سب سے گہرا پورٹ اور گہرے ساحل سمندر کا عظیم تحفہ ہے جو کہ بحری جہازوں کیلئے انتہائی آئیڈیل ہے یہ گوادر شہر جو پاکستان کو دنیا میں متعارف کرنے والا ساحلی شہر ہے جوکہ سی پیک کے باعث پرفریب ترقی اور آنکھوں کو دھوکہ دینے والی تبدیلی سے فیض حاصل کرنے میں تاحال ناکام ہے۔
آج ڈیجیٹلائزیشن کا دور ہے ساری دنیا ڈیجیٹلائزیشن میں بہتری کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے اور ڈیجیٹل اکانومی تیزی سے پھیل رہی ہے دنیا کی معیشت جس تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اس سے اندازہ لگنامشکل نہیں کہ مستقبل میں معیشت کے خدوخال کیا ہونگے۔ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں ہائے روز جدت سے لوگوں کے روزمرہ معمولات کے ساتھ ساتھ ان کے معاشی حالات کو بھی متاثر کررہی ہے۔
26نومبر 2012ء میں انڈیا کی راج دھانی دہلی میں متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے شخص اروند کیجروال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی۔ اروند کیجر وال قطعی طورپر معروف شخصیت نہیں تھے لیکن وہ ملک کے زوال پذیر کلچر سے نالاں تھے۔ انہوں نے دہلی میں بجلی اور پانی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف مہم چلائی تو عوام نے ان کا پورا ساتھ دیا جس کے بعد عام آدمی پارٹی پسے ہوئے عوام میں ایک مقبول جماعت کے طورپر ابھری کر سامنے آئی۔
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا مرکز بلوچستان کی ساحلی پٹی سے سندھ کی ساحلی پٹی پر منتقل کرنے کے بعددنیا کی نظریں اس خطے پرلگ گئی ہیں۔ساحلی پٹی کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔ دنیا کے سرمایہ کاروں نے گوادر سے کراچی میں سرمایہ کاری کے لئے دوڑیں لگانی شروع کردی ہیں تاہم وفاقی حکومت کے پاس کراچی کے انڈیجینس لوگوں کے معاشی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے کوئی پالیسی موجود نہیں ہے۔ معاشی مسائل کے عدم حل کی وجہ سے انڈیجینس لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کراچی میں انڈیجینس لوگوں میں بے روزگاری اور غربت ایک اہم مسئلہ ہے۔ کراچی میں ساٹھ فیصد رقبے پر وفاقی اداروں کا اختیار ہے۔ جہاں انڈیجینس لوگوں کی حصہ داری آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ اگر سی پیک میں بھی انڈیجینس لوگوں کو حصہ نہیں دیاگیا، انہیں روزگار سمیت دیگر معاملات سے دور رکھاگیا تو سندھ میں امن وامان کی صورتحال مزید ابتر ہوگی۔ ویسے بھی سندھ میں انسرجنسی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سندھ عسکریت پسندی کی جدوجہدکی ایک طویل تاریخ رکھتاہے۔
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ آج کل بلوچستان کی سیاست میں خاصی اہمیت حاصل کرچکے ہیں، اس اہمیت کی وجہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں گوادر کے شہر میں پے در پے جلسے، جلوس، دھرنے اور مارچ ہیں۔ مولانا کا تعلق پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت (جماعت اسلامی ) سے ہے۔ماضی میں جماعت اسلامی کو بلوچستان میں وہ پذیرائی نہ مل سکی جو مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں حالیہ دھرنوں کی وجہ سے ملی ہے۔ اس پذیرائی کی وجہ مولانا کا جماعت اسلامی کی بنیادی پالیسیز اینٹی قوم پرست نظریات سے یکسر مختلف ہوناہے کیونکہ جماعت اسلامی جن نظریات کی روز اول سے نفی کرتی آرہی تھی مولانا نے بلوچستان میں اسی سوچ کو اپناتے ہوئے پارٹی پالیسیز کی سیاست سے ہٹ کر کام کیا اور اس حکمت عملی کا خاطر خواہ فائدہ بھی اٹھا چکے ہیں۔
اس وقت بلوچستان بالخصوص مکران کے عوام چند ایسے مسائل سے دوچار ہیں جوہمارے حکمرانوں اورریاست کی پیداکردہ ہیں۔مکران کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش ایران کے بارڈر سے وابستہ ہے لیکن اب اس ذریعہ معاش کو بند کر دیاگیاہے۔ ٹرالر مافیا گوادر کے لوگوں کی حق تلفی کررہاہے، بلوچستان میں جگہ جگہ چیک پوسٹ نظر آتے ہیں اس کے باوجود دن بدن واردات میں اضافہ ہوتا جارہاہے ، یہ سب صرف اور صرف عوام کو تنگ کرنے کے بہانے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک ملک سے دوسرے ملک میں جارہے ہیں ‘ روک کر پوچھا جاتاہے کہ “کہا ں سے آرہے ہو اور کہاں جارہے ہو” ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہم مقبوضہ علاقے میں ہیں۔ یہاں کے لوگ کئی مسائل سے دوچار ہیں۔ ان سب مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمن نے ایک تحریک کا آغاز کیا جو “حق دو گوادر” کے نام سے ہے۔
بلوچستان کے بیشتر سیاسی نمائندے جو کراچی ڈیفنس یا کوئٹہ میں اپنے بنگلوں میں رہتے ہیں، انکے ڈائننگ روم کی آرائش و سجاوٹ میں سب سے زیادہ توجہ shelf Wineپر دی جاتی ہے، وہ اس کمرے کی ہر چیز باہر پھینک سکتے ہیں جیسے الماری، صوفہ،ٹی وی، فریج وغیرہ لیکن اس وائن شیلف کے ساتھ ایسا برتاؤ ہرگز برداشت نہیں کر سکتے، اور ہر ممبر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا انکے وائن شیلف کی برابری نہ کر پائے۔مانو یہ وائن شیلف ان بنگلوں کا دوسرا جھومر ہے۔وہ اس شیلف میں بہترین برانڈز کے رنگ برنگی بوتلیں سجاتے ہیں اور جام چھلکاتے ہیں بلکہ محفل میں چراغاں کرتے ہیں۔
ملک کے بیشتر شہروں میں پیٹرول پمپس بند ہونے کی وجہ سے شہری رُل گئے، گزشتہ شب سے ہی پیٹرول پمپس مالکان نے اپنے پیٹرول پمپ بند کردیئے تھے جبکہ یہ دعویٰ بالکل غلط ثابت ہوا کہ پیٹرول پمپس بندش پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی جبکہ تمام مرکزی شہروں کی اہم شاہراہوں پر کمپنیز کے پیٹرول پمپس بندہیں، کوئی کارروائی عمل میں نہیںلائی گئی نہ ہی کسی پیٹرول پمپ کو سیل کیا گیا ،ماضی کی طرح یہ بھی ایک دعویٰ ہی ثابت ہوا۔ اس تمام تر صورتحال میں غریب عوام کو ہی سزابھگتنا پڑرہا ہے جو پہلے سے ہی مہنگائی کے ہاتھوں ذہنی اذیت میںمبتلاہیں مگر بحرانات ہیںکہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔پیٹرولیم ڈیلرزایسوسی ایشن نے ملک بھرمیں ہڑتال کردی ہے صرف ایمبولنسز کو پیٹرول مہیا کرنے کافیصلہ کیا گیا تھا مگر ایمبولینسز کو کہاں سے پیٹرول دستیاب ہوگا جبکہ تمام پیٹرول پمپس بند پڑے ہوئے ہیں ۔