تھلیسیمیا مائنر میں مبتلا لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ اگر تھلیسیمیا مائنر نارمل آدمی سے شادی کرے تو ان کے ہاں کوئی بھی تھیلیسیمیا بچہ پیدا نہیں ہوگا۔ تھیلیسیمیا انٹر میڈیا کے مرض میں مبتلا مریض ایک خاص دوائی کے استعمال سے ساری عمر خوشگوار زندگی گزارتے ہیں۔ تھلیسیمیا میجر کے مریضوں کو ساری عمر خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ ضلع گوادر میں بھی بڑی تعداد میں تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچے موجود ہیں لیکن ان کو سرکاری سرپرستی میں علاج و معالجہ کی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں۔
سیاست کو پہلے یعنی ریاست مدینے کے وقت عبادت کا درجہ دے کر خلق خدا اور انسانیت کی خدمت کی جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ سیاست میں مکاری دھوکہ دہی اور سیاست کاروباری بننے لگا۔ اب ہم سب بلاشبہ یہ ماننے پر حق بجانب ہیں کہ سیاست آج کل یا موجودہ حالات میں منافع بخش کاروبار کی روپ دھار چکی ہے۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی نے برملا کہا تھا کہ آ جائو سیاست میں لگ گیا تو وزیر نہیں تو فقیر۔ بالکل موجودہ حالات اسی بات کی مکمل عکاسی کرتے ہیں تاہم عام انتخابات ہوں یا سینٹ، امیدوار دل لٹا کر دولت خرچ کرتے ہیں پاکستانی سیاست دنیا کی نسبت منافع بخش اور طاقت کا محور سمجھا جا تا ہے اسی وجہ سے جس شعبے میں وافر مقدار میںپیسہ،اقتدار طاقت رعب و دبدبہ ہو پاکستانی قوم اس عہدے کیلئے دولت پانی کی طرح بہاتے ہیں۔
گزشتہ سال انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 2018 میں دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ 81 لاکھ کینسر کے نئے کیسز سامنے آئے ۔اموات کی شرح میں اضافے کی وجہ آبادی کا بڑھنا اور بوڑھا ہونا قرار دیا گیا ہے، ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کا صحت مند نہ ہونا اور بڑی معیشتوں کے ساتھ منسلک افراد کا خطرناک روایتی رہن سہن ہونا ہے۔تاہم اگر اس مرض کی تشخیص ابتدائی مرحلے پر ہوجائے تو علاج آسان اور اس سے مکمل چھٹکارا کافی حد تک ممکن ہوتا ہے۔
اگر آپ نے کرکٹ کھیلی ہو یا خاص کر فرسٹ کلاس لیول تک کم از کم کرکٹ کھیلی ہو تو کچھ کھلاڑیوں کیلئے ایک لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ یہ کھلاڑی ( ماٹھا )ہے اسکے معنی ہوتے ہیں کہ کھلاڑی کا کھیل کم از کم درجے سے بھی کم ہے ایسے کھلاڑی پر ٹیم یا خاص کر کپتان کبھی اعتماد نہیں کرتا لیکن کبھی کبھی ایسے ہی ماٹھے کھلاڑی کھیل کا پانسہ پلٹ دیتے ہیں ۔بلوچستان کی موجودہ صوبائی حکومت میں کپتان کو اور چند ایک کھلاڑیوں کو چھوڑ کر بہت سے کھلاڑی ایسے ہی ماٹھے ہیں جب موجودہ اسمبلی وجود میں آئی تو اسکے دو اراکین کے بارے میں ابتداء میں میری رائے تھی کہ یہ دونوں ماٹھے کھلاڑی ہیں۔
بلوچستان ملک کے تینتالیس فیصد رقبے پر مشتمل بڑا صوبہ ہے لیکن صوبے کی آبادی زرعی اور مردم شماری کے حوالے سے ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ پورے صوبے میں لاکھوں ایکڑ بنجر اور غیر آباد زمینیں پڑی ہوئی ہیں ۔پانی کی عدم دستیابی اور برساتی پانی کو قابل استعمال یااسٹور کرنے کیلئے ڈیمز کے فقدان کے باعث صوبے میں صرف چار اضلاع دریائی پانی سے سیراب ہو رہے ہیں ۔بلوچستان میں سوائے میرانی ڈیم کے کوئی بڑا ڈیم نہیں۔ صوبے میں برساتی پانی ذخیرہ کرنے پر حکمرانوں نے کوئی خاطر خواہ توجہ ہی نہیں دی ہے۔
اس وقت بلوچستان کے گھمبیر مسائل میں ایک اہم مسئلہ جعلی لوکل اور شناختی کارڈ کا ہے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بہت سے شہروں میں ایسے بہت سے جعلی لوکل برآمد ہوئے جنہوں نے بلوچستان سے اپنے جعلی لوکل اور شناختی کارڈ کے بل بوتے نہ صرف بلوچستان میں اہم سرکاری عہدوں پر براجمان ہوئے بلکہ بلوچستان کے وفاقی کوٹہ کو بھی ہم سے چھیننے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے باقی اضلاع کا پتا نہیں مگر خاران جس سے میرا تعلق ہے یہاں جعلی لوکل یا شناختی کارڈ بننے میں سب سے زیادہ ہاتھ ہمارا اپنا ہی ہوتا ہے۔
ہمیشہ سے سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں کہ ادب کا صحافت سے گہرا تعلق رہا ہے، مگر پریکٹیکل طور پر کبھی نہیں دیکھا ۔ یہ 2016 کی بات ہے کہ بلوچی زبان کے نامورطنز و مزاح نگار مرحوم محمد بیگ بیگل اور بلوچی زبان کے شہنشاہ غزل مرحوم ظفر علی ظفر کو بلوچی اکیڈمی کوئٹہ نے ایک سیمینار کے سلسلے میں کوئٹہ مدعو کیا تھا۔ سیمینار محمد بیگ بیگل اور ظفر علی ظفر کے نام پر تھا۔ وہ وقت بھی بڑا قیمتی تھا، ایک تو ہم بے روزگار اوپر سے ادب سے لگاؤ۔دن رات بلوچی اکیڈمی کوئٹہ میں اس وقت کے چیئرمین بلوچی اکیڈمی کوئٹہ عبدالواحد بندیگ کے ساتھ گپ شپ کرتے دن گزر جایا کرتے تھے۔ جب محمد بیگ بیگل اور ظفر علی ظفر کا آنا ہوا ،تو زیادہ تر وقت محمد بیگ بیگل اور ظفر علی ظفر کے ساتھ ان کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں بحث و مباحثہ میں گزر جایا کرتا تھا۔
میڈم آج ہم نے دور کے گاؤں جاکر خواتین کو میسر غذائی اجزاء کے بارے میں بتایا ہے اور کچھ بچے کم وزن کے ساتھ ملے تھے جن کو ہم نے غذائی پیکٹس دیئے ہیں، ساتھ کے گاؤں کے 4 بچے اب نارمل وزن تک پہنچ گئے ہیں ضروری ہدایات کے ساتھ ان بچوں کو فارغ کر دیاہے۔
تاریخ میں ایسی ہستیاں بھی ملتی ہیں جو اپنی زندگی کے اچھے ایام اپنے لوگوں کی اجتماعی ترقی، فلاح و بہبود ،خوشحالی، اور اپنے آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے لیے اپنی سرزمین اور قوم کے نام وقف کرتے ہوئے کٹھن راہوں پر چلنے کا مشکل ترین فیصلہ کرتے ہیں،اور اپنے گروہی، ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سماج اور معاشرے کی بہتری کے لیے فکر مند رہتے ہوئے سماجی برائیوں کے خاتمے اور شعوری فکر و فلسفے کے عملی کردار کی خاطر ایک رول ماڈل انسان کا روپ دھارلیتے ہیں، جن کے خیالات وافکار ،کردار، رفتاراور گفتار پوری قوم کے حالات کو بدلنے اور معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی کا پیشہ خیمہ ثابت ہوتے ہیں ۔