مجلس فکر و دانش کے زیراہتمام مکالمہ طلبہ یونین کی بحالی اور ان کا آئینی کردار
طلبہ یونین کی بحالی
سید فضل الرحمن | وقتِ اشاعت :
سید فضل الرحمن | وقتِ اشاعت :
مجلس فکر و دانش کے زیراہتمام مکالمہ طلبہ یونین کی بحالی اور ان کا آئینی کردار
ضیاشفیع بلوچ | وقتِ اشاعت :
اس وقت بلوچستان کے گھمبیر مسائل میں ایک اہم مسئلہ جعلی لوکل اور شناختی کارڈ کا ہے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بہت سے شہروں میں ایسے بہت سے جعلی لوکل برآمد ہوئے جنہوں نے بلوچستان سے اپنے جعلی لوکل اور شناختی کارڈ کے بل بوتے نہ صرف بلوچستان میں اہم سرکاری عہدوں پر براجمان ہوئے بلکہ بلوچستان کے وفاقی کوٹہ کو بھی ہم سے چھیننے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے باقی اضلاع کا پتا نہیں مگر خاران جس سے میرا تعلق ہے یہاں جعلی لوکل یا شناختی کارڈ بننے میں سب سے زیادہ ہاتھ ہمارا اپنا ہی ہوتا ہے۔
ضیاشفیع بلوچ | وقتِ اشاعت :
ہمیشہ سے سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں کہ ادب کا صحافت سے گہرا تعلق رہا ہے، مگر پریکٹیکل طور پر کبھی نہیں دیکھا ۔ یہ 2016 کی بات ہے کہ بلوچی زبان کے نامورطنز و مزاح نگار مرحوم محمد بیگ بیگل اور بلوچی زبان کے شہنشاہ غزل مرحوم ظفر علی ظفر کو بلوچی اکیڈمی کوئٹہ نے ایک سیمینار کے سلسلے میں کوئٹہ مدعو کیا تھا۔ سیمینار محمد بیگ بیگل اور ظفر علی ظفر کے نام پر تھا۔ وہ وقت بھی بڑا قیمتی تھا، ایک تو ہم بے روزگار اوپر سے ادب سے لگاؤ۔دن رات بلوچی اکیڈمی کوئٹہ میں اس وقت کے چیئرمین بلوچی اکیڈمی کوئٹہ عبدالواحد بندیگ کے ساتھ گپ شپ کرتے دن گزر جایا کرتے تھے۔ جب محمد بیگ بیگل اور ظفر علی ظفر کا آنا ہوا ،تو زیادہ تر وقت محمد بیگ بیگل اور ظفر علی ظفر کے ساتھ ان کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں بحث و مباحثہ میں گزر جایا کرتا تھا۔
حمیدہ نور | وقتِ اشاعت :
میڈم آج ہم نے دور کے گاؤں جاکر خواتین کو میسر غذائی اجزاء کے بارے میں بتایا ہے اور کچھ بچے کم وزن کے ساتھ ملے تھے جن کو ہم نے غذائی پیکٹس دیئے ہیں، ساتھ کے گاؤں کے 4 بچے اب نارمل وزن تک پہنچ گئے ہیں ضروری ہدایات کے ساتھ ان بچوں کو فارغ کر دیاہے۔
غلام نبی مری | وقتِ اشاعت :
تاریخ میں ایسی ہستیاں بھی ملتی ہیں جو اپنی زندگی کے اچھے ایام اپنے لوگوں کی اجتماعی ترقی، فلاح و بہبود ،خوشحالی، اور اپنے آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے لیے اپنی سرزمین اور قوم کے نام وقف کرتے ہوئے کٹھن راہوں پر چلنے کا مشکل ترین فیصلہ کرتے ہیں،اور اپنے گروہی، ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سماج اور معاشرے کی بہتری کے لیے فکر مند رہتے ہوئے سماجی برائیوں کے خاتمے اور شعوری فکر و فلسفے کے عملی کردار کی خاطر ایک رول ماڈل انسان کا روپ دھارلیتے ہیں، جن کے خیالات وافکار ،کردار، رفتاراور گفتار پوری قوم کے حالات کو بدلنے اور معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی کا پیشہ خیمہ ثابت ہوتے ہیں ۔
عبدالخالق رند | وقتِ اشاعت :
انتہائی کٹھن حالات ، وسائل کی کمی ، مشکل صورتحال میں کس طرح پرسکوں رہ کر کام کرنا ، فرائض انجام دینا اور جرات و بیباکی سے سچ عوام تک پہنچانا ہے یہ فن اگر کسی نوجوان صحافی یا مستقبل میں صحافت کے میدان کا انتخاب کرنے والے کسی نوجوان نے سیکھنا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ لالہ صدیق بلوچ کی زندگی کا بغور مطالعہ کرے ، مشکلات اور ناموافق حالات کی باتیں کرنے والے صحافی اگر اپنی زندگی میں ہی صحافت کے شعبے میں لیجنڈ کا درجہ رکھنے والے لالہ صدیق بلوچ کی جدوجہد سے آگاہی حاصل کرلیں تو پھر شاید ان کے لئے اپنے فرائض کی تکمیل کے لئے کسی بھی مشکل کی پراوا نہ کرتے ہوئے آگئے بڑھنا ہی مقصد ہوگا۔
ریاض سہیل | وقتِ اشاعت :
یہ 1994 کی بات ہے جب میرے والد سہیل سانگی نے سندھی زبان میں ہفت روزہ “آرسی” کا اجراء کیا تھا، یہ سندھی کا پہلا نیوز میگزین تھا۔ ان کے ہمراہ ان کے دیرینہ دوست بشیر ملاح بھی تھے جو میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ سیاسی سفر کرچکے تھے، میں نے ابھی صحافت کا کوئی باضابطہ سفر شروع نہیں کیا تھا لیکن اس میگزین کے کچھ انتظامی امور میں دلچسپی لینا شروع کی تھی۔ جب بات آئی کہ بلوچستان کی صورتحال پر کون لکھے گا، تو والد نے بتایا کہ اپنا کامریڈ صدیق بلوچ ہے نا کوئٹہ میں، وہ لکھیں گے۔
محمود ابڑو | وقتِ اشاعت :
حقیقی فلسفہ حیات یہی ہے کہ موت صرف جسم کی ہوتی ہے۔ روح اور کردار کی موت ہرگز نہیں ہوتی۔ روح اپنے اصل مقام جا کر پہنچتی ہے اور کرداراس جہان رنگ وبو میں بسنے والوں کے لئے ایک مشعل راہ ہوتا ہے۔اسی طرح ایک مشعل نما شخصیت بلوچستان کی سیاست اور صحافت میں ایک بڑا نام ماما صدیق کا ہے۔ وہ ایک صوفی منش ،غریب پرور ، محنت کش اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ماما صدیق ایک ایسا باکمال کردار تھے کہ زندگی کے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ اسی طرز کاہوتا تھا۔ وہ اپنی شخصیت میں ہر فن مولا تھے ، تبھی تو میں نے انہیںایک صوفی منش انسان کہا ہے۔
عزیز سنگھور | وقتِ اشاعت :
سینئر صحافی اور سیاسی، معاشی اور اقتصادی امور کے ماہر صدیق بلوچ کی شخصیت اور صحافتی زندگی کا احاطہ چند الفاظ میں کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ پوری زندگی آزادی صحافت کا درس دیتے رہے۔ اْنہوں نے اپنے نظریات اور اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، آخری دم تک اپنے نظریات پر سختی سے ڈٹے رہے۔ وہ انتہائی کٹھن حالات کا مستقل مزاجی سے مقابلہ کرتے رہے۔ جب انہوں سیاست کا آغاز کیا تو انہوں نے قیدوبندکی صعوبتوں اور اذیتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ وہ نہ کبھی ٹوٹے ،نہ جھکے، بلکہ اشرافیہ کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑے رہے۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
یار ابھی اس سے کوئی بحث مت کرنا، خان صاحب کیفیت میں ہیں، سردار جی کے بارہ بج گئے کیا؟ لاہوریوں سے راستہ پوچھنے کی غلطی مت کرنا،گوشت کھانا کیوں چھوڑ دیا، ہندو ہوگئے ہو کیا؟ ہر بات پر عورتوں کی طرح ٹسوے نہ بہایا کرو، چوڑے، مچھر، کھٹمل، میراثی، کرانچی والے،را جا جی، الغرض ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جو کسی ایک طبقے، فرقے،ذات یا علاقے کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ ایسے کئی جملے ہم سب بچپن سے سنتے اور ان پر ہنستے آئے ہیں اور اپنی گفتگو میں بے محابا انکا استعمال بھی کرتے ہیں۔ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس نے آج تک کسی دوسری قوم، طبقے یا فرقے کے بارے میں اس قسم کے ٹیگ اور لیبل استعمال نہیں کئے ہیں۔