ملک کے شہری گیس کا انتظار نہ کریں متبادل ذرائع تلاش کریں ، حکومت اور گیس کمپنی کی جانب سے طفل تسلیاں جاری رہینگی مگر گیس نہیں ملے گی۔ توانائی بحران کا تذکرہ پہلے ہی حکومت کرچکی ہے جس کی وجہ سے گیس کمپنی کو ایک اورموقع فراہم ہوگیا ہے، ویسے بھی پہلے سے سوئی سدر ن گیس کمپنی گیس فراہم نہیں کررہی تھی ،اب توانائی بحران کا ایک بہانہ ہاتھ آنے کے بعد ان کے پاس جواز بہت زیادہ ہے شکایات اور احتجاج کرنے سے اپنے ہی شہریوں کو اذیت میں ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ شاہراہوں ، سڑکوں پر دھرنا دینے والے اگر متاثرین ہیں تو اسی طرح شاہراہوں اور سڑکوں پر گھنٹوں خواری کاٹنے والے بھی گیس سے محروم شہری ہیں۔
ملک میں 2023ء سیاسی تبدیلی کا سال ثابت ہوگا ویسے ہی عام انتخابات قریب آتے ہی سیاسی جماعتوں کی تمام تر توجہ پارٹی کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہوجاتی ہے جس میں ہدف اہم سیاسی شخصیات ہوتے ہیں سیاسی جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ حلقے کے بااثرافراد کو پارٹی میں شامل کرسکیں۔
ملک میں 2022ء کا سال بھی سیاسی اور معاشی حوالے سے کوئی خاص نہیں رہا۔ سیاسی تبدیلیاں آتی ر ہیں، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ پی ٹی آئی کی تبدیلی سرکار نے بہت سے وعدے کئے تھے جن میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہوا البتہ یوٹرن بہت لیے گئے۔
ایم کیو ایم سندھ کے شہری خاص کر اردو بولنے والوں کی ایک منظم جماعت کے طور پر اپنی ایک تاریخ اور پہچان رکھتی ہے۔ اردو بولنے والوں کی نمائندگی کی دعویدار جماعت گزشتہ چند برسوں سے بدترین سیاسی حالات کا سامنا کررہی ہے جس کی ایک وجہ دھڑے بندی اور دوسرا اندرون خانہ اختلافات ہیں، انہی دو اہم وجوہات کے باعث ایم کیو ایم زوال کی طرف گیا اور اس کی ووٹ بینک تقسیم ہوگئی۔
گوادر میں دھرنے پر تشدد کے بعد دفعہ 144نافذ کردیا گیا ہے۔ بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پکڑدھکڑ ،گرفتاریاں، تشدد، پابندیاں مسئلے کا حل ہیں اور یہ دیرپا ثابت ہوسکتاہے؟ یقینا نہیں کیونکہ بلوچستان میںجب بھی کسی مسئلے کے حل کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا تو اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ بلوچستان کے اتنے سارے مسائل ہیں کہ کسی ایک کو اٹھایا جائے تو وہ بھی پہاڑ نما دکھائی دے گا کیونکہ بروقت مسائل کے حل کو کبھی بھی ترجیح نہیں دی گئی اور تاخیری حربوں کے ذریعے مسائل کو الجھادیا گیا، انہیںحل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی مستقل پالیسی بنائی گئی کہ کس طرح سے بلوچستان میں موجود سیاسی، معاشی جو خاص کر بڑے معاملات ہیں ان کو حل کرکے حالات کو بہترکیاجائے۔ گوادرھرنے سے قبل بھی بلوچستان میں بہت سارے مسائل پر مظاہرے ہوئے، چھوٹے سے لے کر بڑے مسائل پر لوگ سڑکوں پر نکلے ۔
’’گوادرحق دو تحریک‘‘ کے رہنماؤں اور دیگر کے خلاف کریک ڈاؤن، تشدد،گرفتاریوں کے خلاف شدید ردعمل سامنے آرہا ہے،بلوچستان کے بیشتر علاقوں خاص کر کیچ میں احتجاجی مظاہرے اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی ،مذہبی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی کی جانب سے بھی احتجاج اور مذمت کی جارہی ہے۔ بہرحال گوادر حق دو تحریک کے متعلق حکومت کی جانب سے جو مؤقف دیا گیا ہے اسے کل اسی اداریہ میں تحریرکیا گیا تھا جبکہ حق دو تحریک کی جانب سے بھی یہی بتایاجارہا ہے کہ ہم پُرامن احتجاج پر یقین رکھتے ہیں اور ہم نے پہلے بھی حکومت کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کی تھی۔
گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کے رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرگیا۔ گوادر کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی جارہی ہیں جس کے باعث معمولات زندگی منجمد ہوکر رہ گئی ہیں۔پولیس نے ’حق دو تحریک‘ کے کیمپ پر اتوار کی شب کارروائی کی تھی جس میں حسین واڈیلا سمیت متعدد افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ گوادر میں لوگوں کی بڑی تعداد شہر میں احتجاج کے لیے نکل آئی جن کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان نے گوادر میں صورتحال کی ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے حکومت نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔’حق دو تحریک‘ کے رہنماؤں کے ساتھ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کی قیادت میں ایک حکومتی وفد نے اس سے قبل مذاکرت کیے تھے جس میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔جبکہ حکومت بلوچستان نے گوادر کی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری ’حق دو تحریک‘ پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین کی جانب سے پورٹ کو بند کرنے کی کوشش کی گئی جس پر پولیس کو محدود کارروائی کرنی پڑی۔ ’حق دو تحریک‘ کی جانب سے دوسری مرتبہ مطالبات کے حق میں گوادر شہر میں احتجاج کا سلسلہ 27 اکتوبر سے شروع کیا گیا تھا۔’حق دو تحریک‘ کے رہنماؤں کے مطابق حکومت کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کے لیے نہ آنے پر گوادر شہر میں پورٹ اور ایئرپورٹ کے سامنے دھرنا دینے کے علاوہ ریلیاں بھی نکالی گئیں جن میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی ریلی میں شامل تھی۔’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ جب حکومت نے لوگوں کے احتجاج کو اہمیت نہیں دی تو ایک اور احتجاجی دھرنا کیمپ ایکسپریس وے پر گوادر پورٹ کے قریب قائم کیا گیا۔ایکسپریس وے پر احتجاجی کیمپ کو قائم کرنے کے باعث پورٹ کو جانے والے تمام اہم راستے بند ہوگئے۔
بلوچستان میں شدید سردی کے دوران گیس اور بجلی کے غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوکر رہ گئے ہیں، کوئٹہ سمیت دیگر سرد علاقوں میںدرجہ حرارت منفی پانچ سے دس تک پہنچ گئی ہے اس صورتحال میں گیس نہ ہونا ظلم کی انتہاء ہے۔ بلوچستان گیس سپلائی کرنے والا بڑا صوبہ ہے ،سوئی گیس پورے ملک میں فراہم کی جاتی ہے مگر بدقسمتی سے یہی سوئی گیس جو ڈیرہ بگٹی کے ضلع سے دہائیوں سے نکل رہی ہے جو ملک بھرکی صنعتوں سمیت دیگر شہروں کی صارفین کی ضروریات پوری کررہی ہے مگر بلوچستان اس سے آج تک محروم ہے، اورجن چند علاقوں کو گیس فراہم کی جاتی ہے وہاں بھی گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہے دیگریہ کہ گیس لوڈشیڈنگ کا کوئی وقت نہیں ،خاص کر سردی کی آمد کے ساتھ ہی گیس ناپید ہوجاتی ہے لوگ لکڑیوں سے سردی سے بچاؤ کا انتظام کرتے ہیں۔ افسوس ہی کیاجاسکتا ہے کہ بارہا اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دلانے کے باوجود بلوچستان کے عوام کو گیس فراہم نہیں کی جاتی ۔اس کے ساتھ زیادتیوںکی ایک سلسلہ یہ بھی ہے کہ گیس رائلٹی کی مد میں صوبے کورقم نہیں ملتی جو واجب الادہے ۔
ملک میں جب تک سیاسی استحکام اور معیشت پر گرینڈ ڈائیلاگ نہیں کیاجائے گا مسائل بڑھتے ہی جائینگے اس وقت موجودہ حالات جس طرح چل رہے ہیں ,معیشت پر بہت برے اثرات مرتب کرر ہے ہیں۔ معیشت کی ابتر صورتحال کا خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے ٹیکسز کا بوجھ پہلے سے ہی اٹھارہے ہیں اشیاء خوردونوش کی قیمتیں روز مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ گوشت، سبزی، پھل ہر وہ چیز جو روز مرہ لوگ استعمال کرتے ہیں ان میں کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ۔ ماضی اور موجودہ حکومتوں کی جانب سے ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنا معمول بن گیا ہے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات نقش ہوچکی ہے کہ کوئی بھی جماعت بدترین حالات کی ذمہ داری نہیں اٹھاتی البتہ اچھے کاموں اور تختی لگانے کا کریڈٹ پہلے لیاجاتا ہے۔
گزشتہ روز اسلام آباد بہت بڑی تباہی سے بچ گیا ،بروقت پولیس نے خود کش حملہ آوروں کو گاڑیوں کے اندر روک لیا، پولیس نے جب پوچھ گچھ کی تو ایک حملہ آور گاڑی کی طرف کاغذات کے لیے گیا اور پھر گاڑی کو بارودسے اڑادیا۔ یقینا دہشت گردوں کا ہدف اسلام آباد کے اندر سیکیورٹی ادارے اور عوامی ہجوم تھا، خدانخواستہ یہ حملہ آور داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے تو بہت بڑی تباہی پھیلاتے ۔بہرحال اللہ پاک نے کرم کیا انسانی جانیں ضایع ہونے سے بچ گئیںالبتہ پولیس اہلکاروں نے جانوں کی قربانی دیتے ہوئے اسلام آباد کو دہشت گردی کے بڑے سانحے سے بچالیاجس پر ان کی قربانی قابل تعریف ہے۔