ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اس وقت ایک آئینی اور سیاسی بحران موجود ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت آمنے سامنے ہیں 8 ماہ سے زائد وقت گزرنے کے باوجود کشیدگی کم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔
ملک میں معیشت اور امن وامان کی خرابی کا ایک بڑا عنصر غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکی باشندے ہیں جو ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہوجاتے ہیں اور پھر مختلف شہروں میں کاروبار کرتے ہیں مگران میں سے بعض عناصر دہشت گردی ، اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کے ذریعے ملک میں انتشار اوربدامنی پھیلاتے ہیں ۔یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے۔
ملک میں ایک طرف سیاسی ہلچل جاری ہے تو دوسری جانب بہت سارے مسائل پس پشت چلے جارہے ہیں جن کابراہ راست تعلق عوام سے ہے یقینا سیاسی بحران سے بھی ملک میں انتشار پیدا ہوتا ہے تو اس کا خمیازہ بھی عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
ملک میں توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے ایک بار پھر تجارتی مراکز کو رات 8بجے جبکہ شادی ہالز کو رات 10بجے بندکرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد توانائی کی بچت ہے۔ اس فیصلے کو یقینا تاجر برادری تسلیم نہیں کرے گی کیونکہ کراچی سمیت بڑے شہروں میں تجارتی سرگرمیوں سمیت شادی ہالز رات دیر تک کھلے رہتے ہیں۔
ملک میں سیاسی ہلچل میں شدت آتی جارہی ہے ۔پنجاب میں اسمبلی تحلیل کرنے کا معاملہ بھی فی الوقت کٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے چوہدری برادران دبے لفظوں میں بہت سارے اشارے اور پیغامات عمران خان کو دے رہے ہیں کہ وہ اسمبلی تحلیل کرنے کے موڈ میں نہیں، جس طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی نے گزشتہ روز دوٹوک انداز میں عمران خان کو بتایا کہ سابق آرمی چیف (ر) جنرل قمرجاوید باجوہ میرے اورپی ٹی آئی کے محسن ہیں ان کے خلاف بات کسی صورت برداشت نہیں کرونگا، اگر دوبارہ بات کی گئی۔
ملک میں مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے جس میں کمی کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے ۔آئے روز اشیاء خورد ونوش کی قیمتوں میںاضافہ ہورہا ہے عام لوگوںکی قوت خرید جواب دے رہی ہے۔اب کوئی اچھی خبر معیشت کے حوالے سے نہیں آتی حکومتوں کی جانب سے دعوے تو کئے جاتے ہیں مگر عملاََ معاشی صورتحال ابتر ہی دکھائی دیتی ہے جس کی بنیادی وجہ سیاسی عدم استحکام بھی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ سیاسی ماحول اس وقت بہت زیادہ گرم ہے اپوزیشن اور حکومت مدِ مقابل ہیں ۔
سابق وزیراعظم عمران خان گزشتہ 8 ماہ سے یہی بتاتے آرہے ہیں کہ نیوٹرل کا مفہوم اور اس کی تشریح کیا ہے، جانور، میر صادق ،میر جعفر، سازشی، چوکیدار، چور کا رکھوالا کے ان تمام القابات سے وہ مسلسل ہر فورم پر اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے لے کر کرسی جانے کے بعد تک نوازتے رہے ہیں ۔گزشتہ روز انہوں نے بیان دیا کہ مجھے خوشی ہوگی کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہے کیونکہ اس سے ہماری فوج کا وقار بلند اور ادارہ مضبوط ہوگا۔ عمران خان کے اس بڑے یوٹرن سے کسی طرح کی حیرانگی کسی کو نہیں ہوگی کیونکہ عمران خان یوٹرن کو سیاسی حکمت اور بہترین پالیسی بتاتے ہیں جس کا اعتراف وہ خود متعدد بار کرچکے ہیں۔
پاک افغان سرحد چمن پر ایک بار پھر فائرنگ کاواقعہ پیش آیا ہے جس سے حالات مزید کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ایک طویل جنگ کے بعد افغانستان میں امن کے قیام کے لیے سب کوشاں تھے جبکہ پاکستان نے اول روز سے افغانستان میں دیرپا امن اور استحکام کے حوالے سے ہر فورم پر بات کی ہے کہ افغانستان میں امن خطے کے لیے انتہائی ضروری ہے مگر افسوس کہ اب حکومتی تبدیلی اور امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے انخلاء کے بعد مسلسل افغانستان کی سرزمین سے پاکستانی سرحد پر شہری آبادی کو نشانہ بنایاجارہا ہے جس سے قیمتی جانیں جارہی ہیں اور یہ کوئی اچھا عمل نہیں ہے اس سے یقینا جوابی حملے بھی ہونگے کیونکہ پاکستان بھی اپنی سرزمین کا دفاع لازمی کرے گا۔
ریکوڈک منصوبہ بل کی منظوری کی بعد سیاسی پارہ بڑھ گیا ہے۔ وفاقی حکومت میں موجود بی این پی اور جمعیت علمائے اسلام نے اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے اور اس حوالے سے سخت گیر مؤقف اختیار کیا ہے کہ اگر ریکوڈک منصوبے پر بلوچستان کے مفادات کے برعکس فیصلہ کیا گیا تو حکومت کے ساتھ مزید چلنا مشکل ہوگا مگر یہ جمعیت کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوگا کیونکہ اس وقت مرکزی حکومت پی ڈی ایم کی چھتری تلے چل رہی ہے جس کے سربراہ جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمان ہیں اور اس وقت سب سے زیادہ مشکل وقت مولانا فضل الرحمان پر آیا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو کس طرح اکٹھا رکھ سکے گا۔اس وقت جو ریکوڈک کے حوالے سے سیاسی کشیدگی اتحادیوں کے درمیان پیدا ہوئی ہے۔
بلوچستان کے ساتھ وفاقی حکومت پھرکوئی واردات کرنے جارہی ہے۔ماضی سامنے ہے کہ کس طرح سے بلوچستان کے میگامنصوبوں کو مال مفت دل بے رحم سمجھ کر کمپنیوں کے حوالے کرکے منافع کمایا گیا اور ذاتی طور پر بھی اس سے مستفید ہونے کی ایک طویل تاریخ ہے کہ کس طرح سے سیاسی اور دیگر بڑی شخصیات مختلف منصوبوں میں اپنا ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں اور یہ انکشافات خود وفاقی حکومتوں میں شامل شخصیت ایک دوسرے پر الزامات لگاکر کرتے ہیں۔ بلوچستان کے معدنی وسائل کے لوٹ مار کا سلسلہ دہائیوں سے چل رہا ہے۔