ملکی تاریخ میں وطن عزیز کی سیاسی افق پر مطلع کھبی بھی صاف نہیں رہا بلکہ بارہا قہر آلود ،زہر آلود اور یہاں تک کہ خون آلود بھی رہا ۔ملکی حکمران طبقہ جو چند گنے چنے جانداروں پر مشتعمل ہے باریاں بدلتے رہے ہیں۔ سیاسی منظر نامہ پر نظر رکھنے والوں کو یہ تاریخی جملہ نہیں بھولے گا کہ اُدھر تم اِدھر ہم اور اب وقت کے ساتھ ساتھ اس مشہور جملے کو ذرا رد و بدل کے ساتھ یوں پڑھیئے کہ کھبی تم اور کھبی ہم ۔
ہر ملک اور ریاست میں مرکز پرست رویّے اپنی بالا دستی چاہتے ہیں ۔ تسلط کی مضبوطی ہی ان کی جمع پونجی میں اضافے کا باعث ہے ۔ خطے کی سلامتی اور ریاست کی طاقت کیلئے یہ ایک ضروری امر ہے کہ مرکز مضبوط اور مستحکم ہو لیکن یہ استحکام ملک /ریاست کی دیگر اقوام اور ثقافتوں کیلئے ان کے وسائل پر قبضہ ثابت نہ ہو ۔ وسائل پر غیر منصفانہ تقسیم محرومیوں کو جنم دیتی ہے اور یہی محرمیاں بغاوتوں پر اقوام کو اکساتی ہیں
ذریعہ معاش ہمیشہ سے انسان کی اولین ترجیح رہی ہے۔ معاش کے حصول کے لئے انسانوں نے ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کا راستہ اپنا یا ہے۔ کراچی کی لاکھوں والی آبادی اب کروڑوں میں حساب کی جاتی ہے اسکی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ لوگ دیہاتوں سے شہروں کی طرف معاش کے حصول کے لئے منتقل ہو گئے ہیں جہاں انکا روزگار وہیں بود و باش ۔ کون اپنی بچپن کی یادوں کو چھوڑ کر شہر جانا چاہتا ہے۔
میرے سامنے اس وقت سوشل میڈیا پر دو تصاویر گردش کرتی نظر آرہی ہیں پہلی تصویر بارکھان کے جیل میں بند ایک اسکول ٹیچر ’’مہربان‘‘ کی ہے جسے اس جرم کی پاداش میں سلاخوں کے پیچھے بند کیا گیا ہے کہ مجرم اسکے رشتہ دار ہیں۔ بارکھان کے مقامی صحافی ظفر کھیتران کا کہنا ہے کہ’’ مہربان‘‘ گورنمنٹ ہائی اسکول عیشان بارکھان میں بطور جے وی ٹیچر تعینات ہے۔
برق رفتار ، جدید سروس اور تمام تر سہولیات کے باوجود آخر کتابیں کیوں اہم ہیں۔ آج بھی پڑھا لکھا طبقہ کتابوں کے بغیر اپنی زندگی کو ادھورا ہی تصور کرتا ہے۔ کتابوں سے استفادہ کرنا اور ان کو گھنٹوں گھنٹوں پڑھنا یقیناًکتاب سے قاری
میرے دوست جب بھی مجھ سے ملتے ہیں تو انکے زبان پر یہ جملہ ضرور آجاتا ہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے شبیر تو دیکھے گا تو میں انکو عرض کرتا ہوں کہ شبیر نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے تو ان کے ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ جھلک اٹھتی ہے۔ سفر تو بہت کم کرنا پڑتا ہے لیکن جب سفر ہوتی ہے
میں دکان کے باہر کھڑے بھکاری کے پاس گیا۔ میں نے اسے کچھ پیسے دیے اور پھر سڑک کنارے اپنے ساتھ چائے پینے کو کہا۔میرے خیال سے وہ اپنی عمر کی تیسری دہائی میں داخل ہو چکا تھا۔ اس کے والدین سوات سے آئے تھے مگر وہ پیدا اور بڑا کراچی میں ہوا تھا۔
تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ جب سے دشمنوں نے ہمارے ملک پر میلی نگاہ ڈالی ہے اور جب سے ہمارے ملک میں ہی کچھ ایسے ضمیر فروش پیدا ہوئے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے وطن عزیز کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار بیٹھے ہیں اس وقت سے عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے مختلف حکومتوں کی جانب سے ایک ایسی سکیم عمل میں لائی گئی ہے
کیا ہم ایسی سوسائٹی نہیں بن گئے جو اچھے کاموں کی مخالفت اور برے کاموں کی حمایت کرتی ہے؟ مَیں حیران ہوں کہ سندھ میں 17 سالہ شہناز کو شادی کی رات اس بنیاد پر قتل کرنے والے شوہر کی ابھی تک کسی دینی شخصیت نے مذمت نہیں کی کہ اس کی نوبیاہتا بیوی کنواری نہیں تھی۔ تحفظ خواتین بل پر آسمان سر پر اٹھا لینے والوں کو ایسے واقعات کیوں نظر نہیں آتے۔
اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمہوری ادوار میں ہمیشہ قومی اداروں کو تباہ کیا جاتا ہے کیونکہ سیاسی‘ سفارشی اور راشی افراد کو میرٹ سے ہٹ کر اور ضرورت سے زیادہ تعداد میں بھرتی کرکے اداروں پر مالی بوجھ بڑھایا جاتا ہے جبکہ نااہل افرادکیخلاف قانون بھرتی ہونے سے اداروں کی کارکردگی بدترہوتی چلی جاتی ہے