|

وقتِ اشاعت :   August 17 – 2017

وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنا ء اللہ خان زہری نے کہاہے کہ صوبائی حکومت امن وامان کے حوالے سے درپیش چیلنجز کاکامیابی سے مقابلہ کررہی ہے۔

حکومتی اقدامات کے نتیجے میں امن وامان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے ،دہشت گردی کے اکادکاواقعات ضروررونماہورہے ہیں تاہم یہ واقعات دہشت گردی کے خاتمے کے حکومتی عزم کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔

بلوچستان ایک وسیع وعریض صوبہ ہے جس کی طویل سرحد ہے جس کے باعث ہمیں دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہم پہلے پاکستانی اورپھربلوچستانی ہیں جشن آزادی کے دوران بلوچستان میں پاکستانیت کابھرپورتاثرابھر کر سامنے آیا اورعوام نے بھرپورقومی جوش وجذبے سے یوم آزادی منایا۔

انہوں نے کہاکہ ہماری کوشش ہے کہ ادارے مضبوط ہوں ،ترقیاتی عمل کے ثمرات عوام تک پہنچیں وسائل کاصحیح استعمال ہو اورتعلیم اورصحت کے شعبوں میں اصلاحات کے ذریعے ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جو صوبے کی ترقی اورعوام کی فلاح کی بنیاد بنیں۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ امن وامان کی بہتری ،بدعنوانی کا خاتمہ اورگڈگورننس کا قیام شروع دن سے ہی ہماری ترجیحات میں شامل ہے جس کے باعث صوبے کی مجموعی ترقی کا عمل تیزرفتاری کے ساتھ جاری ہے۔

کوئٹہ سمیت صوبے کے تمام ڈویژنل اورضلعی ہیڈکوارٹروں کی ترقی کیلئے خطیر فنڈز فراہم کئے گئے ہیں جن کے استعمال سے عوام مثبت تبدیلی کا مشاہدہ کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ صوبے میں نئی یونیورسٹیوں اورمیڈیکل کالجز کا قیام عمل میں لایاگیاہے جبکہ پرائمری سطح سے اعلیٰ سطح تک کے تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ گھوسٹ اساتذہ اوراسکولوں کے خلاف بھرپورکاروائی بھی جاری ہے۔وزیراعلیٰ نے یوم آزادی کی تقریبات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے عوام نے صوبے میں قومی پرچم نہ لہرانے کے تاثر کو غلط ثابت کردیاہے سول اورعسکری قیادت میں صوبے میں تحصیل کی سطح پر جشن آزادی ملی جذبے سے منایاگیا۔

اس موقع پرایک وفد کی جانب سے بلوچستان میں رونماہونے والی مثبت تبدیلی کو سراہتے ہوئے کہاگیا کہ انہوں نے کوئٹہ میں قیام کے دوران شہر کی بہتری اورتعمیروترقی کے منصوبوں اورامن ومان کی بہترصورتحال کا خودمشاہدہ کیاہے اورآج کے کوئٹہ اورکچھ عرصہ قبل کے کوئٹہ میں نمایاں فرق کومحسوس کیاہے۔

2013ء کے بعد بننے والی مخلوط صوبائی حکومت نے عسکری قیادت سے ملکر اپنی ترجیحات میں سب سے پہلے صوبے کے امن کو رکھا اور اسی کے ساتھ پُرامن بلوچستان پالیسی ترتیب دی جس کے تحت ہتھیار ڈالنے والے فراریوں کیلئے خصوصی پیکج مختص کیا گیا تاکہ فراریوں کی متاثرہ زندگی کو دوبارہ بحال کیاجاسکے ۔

انہیں تمام سہولیات مہیا کی جائیں، ان کے بچوں کی تعلیم، کاشت کاری اور گھرکیلئے زمین سمیت نقد رقوم کی فراہمی بھی شامل ہے۔

یہ فیصلہ 2015 ء کو کیا گیا اور اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے حکومت و عسکری قیادت نے کام شروع کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں فراریوں نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوئے۔

دوسری جانب اگر ہم آج موازنہ کرتے ہیں تو سب سے بڑا چیلنج اب بھی بلوچستان کو دہشت گردی کا ہے خاص کر شدت پسندوں کی جانب سے حملے جو تاہنوز وقتاََفوقتاََ جاری ہیں جو باہر سے آکر یہاں اپنے سہولت کاروں کے ساتھ ملکر منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر مختلف جگہوں کو ہدف بناکر حملہ کرتے ہیں جس کیلئے حکومت وعسکری قیادت کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ دہشت گردسرحد پارسے آتے ہیں ۔

یہاں دہشت گردی کرتے ہیں جس کے تدارک کیلئے مؤثر پالیسی مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں غیر قانونی طورپر مقیم غیرملکی باشندوں کی فی الفور واپسی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

بلوچستان میں آج بھی لاکھوں کی تعداد میں غیرملکی باشندے آباد ہیں بعض نے تو قومی شناختی کارڈ سمیت دیگر سرکاری دستاویزات بھی بنائے لیے ہیں ۔اب ضرورت ہے تو ان غیر ملکی افراد کی واپسی کو بھی یقینی بنانے کی جو صوبے اور ملکی امن و امان کو آئے روز خراب کرتے رہتے ہیں ۔

بلوچستان میں امن وامان کے حوالے سے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں یہ ایک اہم جز ہے جس پر سختی سے عملدرآمد کرکے حالات کو بہتر بنایاجاسکتا ہے ۔