|

وقتِ اشاعت :   November 30 – 2017

پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے قیام کے پچاس سال مکمل کر لیے ہیں ۔ پارٹی کی حکومت اب صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اس سے پہلے 2008ء کے انتخابات میں پارٹی نے وفاق کے ساتھ سندھ اور بلوچستان میں بھی حکومتیں بنائیں او رآزاد کشمیر کے انتخابات جیت لیے لیکن 2013ء کے انتخابات میں اس کو صرف 47قومی اسمبلی کی نشستیں ملیں اور اب حکومت مسلم لیگ ن کی ہے۔

تحریک انصاف گزشتہ انتخابات میں ابھر کر سامنے آئی اس نے کے پی کے میں حکومت بنائی اور وفاقی اسمبلی میں تیس سے زیادہ نشستیں حاصل کیں ۔ اس طرح سے دو جماعتی سیاست میں اب تیسری قوت وارد ہوئی ہے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو شاید یہ کام سونپ دیا گیا ہے کہ وہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی کردار کشی زیادہ سے زیادہ کریں اور اپنی پارٹی کی پالیسی بیان کرنے سے گریز کریں بلکہ عمران خان کو خاص طورپر کردار کشی کا کام سونپا گیا ہے ان کی تقاریر سے کم سے کم یہی ثابت ہورہا ہے ۔

ہمارے مقتدرہ کا ایک طاقتور طبقہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے سخت خلاف ہے اسی وجہ سے آصف زرداری اپنے پورے دور اقتدار میں ایوان صدر میں مقید رہے ، باہر نکل کر جلسہ عام نہیں کر سکے اورپی پی پی کے حق میں عوامی حمایت حاصل نہ کر سکے ۔ اس کے علاوہ اس وقت کے سپریم کورٹ کو حکومت کو ناکام بنانے کے لئے استعمال کیا گیا سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری شاید اس شرط پربحال ہوئے تھے کہ وہ حکومت وقت کو نہ صرف ناکام بنائیں گے بلکہ اس کو کوئی کام بھی کرنے نہیں دیں گے۔

ان کے ناقدین کا الزام ہے کہ افتخار چوہدری مقتدرہ کے ایک مہرے کے طورپر کام کرتے رہے ۔ کم سے کم پی پی پی کے سینئر رہنماؤں کا یہی خیال ہے تاہم پیپلزپارٹی نے مجموعی طورپر عوام الناس کو مایوس کیا اس کے پاس ترقی پسند سیاسی کارکنوں کی ایک بہت بڑی فوج تھی جو پی پی پی میں رہتے ہوئے ضائع ہوگئی بلکہ وہ تمام لوگ مایوس ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے اور سیاست کو رجعت پسندوں کے حوالے کردیا۔ ابتداء سے ہی پی پی پی نے غلطیاں کیں ۔

پہلے تو وہ یونٹ کی حمایت میں تھے اور پنجاب کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے بعد میں بنگال میں بھٹو مرحوم کا کردار منفی تھااور اس نے فوجی جرنیلوں سے مل کر بنگال کو الگ کروایا اور مغربی پاکستان یا بچے کچے پاکستان میں حکومت بنائی ۔

پی پی پی کی پہلی حکومت فسطائیت کے زیادہ قریب تھی بہ نسبت جمہوریت کے، اس نے فوجی جرنیلوں کے کہنے پر بلوچستان میں فوج کشی کی، بلوچستان میں فوج کشی پی پی پی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ختم ہوگئی ۔ اس میں ہزاروں بلوچ مارے گئے 65ہزار سے زائد معصوم لوگ فوجی کیمپوں میں اذیتیں برداشت کرتے رہے ۔ ان سب کو پی پی پی حکومت کے خاتمے کے بعد رہا کردیا گیا ۔ حیدر آباد سازش کیس جو ایک جعلی مقدمہ تھا ،کوختم کردیا گیا ۔ 

نیشنل عوامی پارٹی کے تمام رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کردیا گیا کسی قسم کی کوئی سازش ثابت نہیں ہوسکی حالانکہ حیدر آباد سازش کیس سالوں چلتا رہا ۔تاہم بے نظیر بھٹو کی دور حکومت پاکستان کا سنہری جمہوری دور تھا گو اس حکومت پر بھی مقتدرہ حاوی رہا، اس دوران طالبان کو اقتدار دلایا گیا ،جنرل نصیر اللہ بابر فاتح کابل بنے۔ 

بے نظیر بھٹو کے بعد پی پی پی کے اکثر رہنماء دولت کے زیادہ شوقین نظر آئے، سندھ میں پی پی پی رہنماؤں نے دونوں ہاتھوں سے سندھ کو لوٹا اور عوام کو مایوس کیا۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ لیاری جو پی پی پی کا گڑھ تھا اس کو جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیا گیا ۔ عوامی نمائندے چننے کا حق جرائم پیشہ افراد کو دیا گیا ۔ اس طرح سے پی پی پی نے اپنے حامیوں اور کارکنوں کو جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں یرغمال بنایا۔ 

دوسری طرف مقتدرہ نے یہ زبردست کوشش کی کہ پی پی پی کا لیاری سے صفایا کیاجائے ۔ انہوں نے جرائم پیشہ افرادکو پی پی پی کے خلاف استعمال کیا ۔ بعض جرائم پیشہ افراد کو گواہ بنایا اور ان سے پی پی پی کے رہنماؤں کے خلاف بیانات ریکارڈ کروائے گئے جو وقت آنے پر استعمال کیے جائیں گے۔ 

اس سب کے باوجودابھی بھی پی پی پی میں بہتری کے آثار نظر نہیںآتے۔ اگر پی پی پی رہنماؤں کا یہی چلن رہاتواس پارٹی کو سندھ بدر ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔