|

وقتِ اشاعت :   January 30 – 2018

جلال خان نے اپنا امیل گدان کے ’منج ‘(گدان کے چاروں طرف لگی سیدھی لکڑیاں جو گنداروں کو سپوٹ دئے ہوتے ہیں ) میں لٹکا کر بندوق’ َبرُوک ‘ (بستروں )میں دبا کر گدان سے باہر نکلا ۔اور بارعب انداز میں کہنے لگا ۔۔۔سازین۔تھکا ہوں ایک پیالی اچھی سی چائے بناکر دو ۔۔ ۔یہ کہہ کر جلال خان ’بانٹیفر‘(مشکیزوں کے رکھنے کی جگہ )کی جانب جاکرانکے قریب بیٹھ کر ’خوا‘(مشکیزہ)کا منہ کھولا اور تاس (کٹورہ) میں پانی بھرنے لگا ۔۔۔۔سازین گڑگیس (کھانا اور روٹی پکانے کے لئے لکڑیوں سے بنایا جانیوالا باورچی خانہ ) میں’ طافو‘(توہ)کے نیچے شینلو رکھ کرانہیں پھونک ما ر کر آگ بڑکانے میں مصروف تھی ۔۔۔۔
ایک ہاتھ سے دوپٹے کو پکڑ کر طافو کے نیچے پھونک مار کر سر اٹھا یا ۔۔۔
دوئیں کے باعث آنکھوں میں بھری آنسوﺅں کو پونچتے ہوئے سازین نے کہا ۔۔۔۔۔
سارنگ خان کے ابا بزگل شیوان (بکریوں کو دور پہاڑیوں پر لے جانا جہاں دو دن سے لیکر ہفتوں تک انہیں وہاں چرانا )لے جایا گیا ہے جو بکریاں دودھ کی غرض سے ہم نے اپنے پاس روک رکھی ہیں انکے بچوں نے آج انکا دودھ پی لیا ہے میرے دودھ دھونے سے قبل ہی ۔۔۔۔۔
یہ سن کر جلال غصے میں آکر بولا تو کیا ان بکریوں کا’ ژالہ ‘ ( کپڑے سے بنایا جانیوالا وہ ہستر جس سے بکری کے تھنے ڈانپے جاتے ہیں جس سے اسکے بچے اسکا دودھ نہیں پی سکتے )نہیں ڈالا۔۔۔۔۔
سازین نے کہا کہ کل ہی ان بکریوں کو بزگل سے الگ کیا ہے تو مجھے وقت نہیں ملا ۔۔۔۔
جلال خان جو کہ چائے کے لئے بے تاب تھا پھر سوال کیا کہ کیا ان بکریوں کو ’خودوم ‘ (بکریوں کے تھنوں پر مینگنوں کو پھیس کر دودھ میں بگوکر انکا کاگودہ بنا کر لگانا جس سے انکے بچے انکا دودھ نہیں پیتے ) بھی نہیں کیا۔۔۔ یا پھر انہیں ’ آغلک ‘ (بکری کے جو بچے گھاس کھانے کے قابل ہوں انکے منہ میں ایک لکڑی انکے جبڑوں میں دبا کراسے اسکے سر سے باندھ دینا جس سے وہ کوئی چیز چبا تو سکتے ہوں مگراپنی ماں کے تھنوں سے دودھ نہیں پی سکتے ہوں ) بھی نہیں کیا ۔۔۔۔۔
سازین جلال کی چائے کی بے انتہاء طلب کو بھانپ چکی تھی اور اس کے غصے کا اندازہ بھی لگا چکی تھی اس لئے خاموشی میں عافیت جانی ۔۔۔۔۔
جلال خان چائے کی چا لئے خواہ کا ’بابیرہ ‘(وہ رسی جس سے مشکیزے کا منہ باندھا جاتا ہے )باندھ کر بڑ بڑاتے گدان کی دوسری طرف گیا اور بکریوں کے کچھ مینگنے لیکر انہیں دوپتھروں پر پیس کر ایک بکری سے دودھ کے چند ’ غُر ‘ (تھنوں سے دود ھ کے چندقطرے )نکال کر انکا گودا بنا کر انکے تھنوں پر لگا دیا ۔۔۔سارنگ نے دوسری بکریوں کے بچوں کیلئے گدان کے پیچھے ’ خت ‘( پہاڑی درخت ) سے کچھ لکڑیاں کاٹ کر اپنے چاقوں سے آغلک بنا کر دوسری بکری کے بچوں کے جبڑوں میں باندھ دیا اور تکھاوٹ دور کرنے کے لئے گدان میں آ کر لیٹ گیا ۔۔۔۔
’ قضاءپیشم ‘(عصر )کا وقت تھا جلال خان توڑی سی نیند کے بعداٹھ بیٹھا اور گدان میں ’زانوں بندھ ‘ (ٹھیک لگانے کے لئے دونوں پیر وں کو خیری سے باندھ کر بیٹھنا ) کرکے بیٹھ گیااور دیکھنے لگا ۔۔۔۔سازین چائے بنا رہی تھی ۔۔ اتنے میں جوش کے باعث دودھ ابل کر چاہ دان سے باہرآکر’ پادینک‘(تین پاﺅں والا سٹینڈ جس پر چائے کی کھیتلی رکھی جاتی ہے ) پر آگر او راسکی خوشبو سارنگ کو لگی تو جلال خوشی کے مارے جھوم اٹھا اور زور سے کہنے لگا ۔۔۔۔ 
سازین مرے تہ چاہ اس ۔۔۔۔