|

وقتِ اشاعت :   July 1 – 2018

پورے پاکستان میں عام انتخابات 25جولائی کوہونگے لیکن بلوچستان میں انتخابات قطعی مختلف ہوں گے ،اس کی وجہ بلوچستان میں ایک دہائی سے زائد جاری شورش اورجنگ ہے ۔

پاکستانی پارلیمانی سیاست میں بلوچوں نے چار تاریخی غلطیاں کی ہیں۔پہلی غلطی انہوں نے ذوالفقارعلی بھٹوکی جانب سے 1977میں منعقدکئے گئے انتخابات میں حصہ نہ لیکرکی ، اس وقت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ ) پرپابندی لگائی گئی تھی اوراس کی بلوچ وپختون لیڈرشپ حیدرآبادمیں جیل تھی ۔ نیپ قیادت نے جیل سے پیغام بھیجاکہ جب تک انہیں رہانہیں کیاجاتااس وقت تک بلوچ عوام انتخابات میں حصہ نہ لیں۔

اس پیغام کے نتیجے میں بلوچوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیااوراس کانتیجہ یہ نکلاکہ پاکستان کی حکومت نے بلوچوں میں سے ایسے لوگوں کوانتخابات کاڈھونگ رچا کر منتخب کیاجوکہ بلوچوں کے حقیقی نمائندے نہیں تھے بلکہ وہ سرکارکے نمائندے اوراس کے وفادارتھے ۔ آج تک یہی کھیپ بہ نام بلوچ لیڈرشپ بلوچوں کے لئے وبال ِ جاں بنی ہوئی ہے۔

بلوچوں نے دوسری تاریخی غلطی 1985میں کی جب جنرل ضیاالحق نے غیرجماعتی انتخابات منعقدکرائے اوراس میں بلوچوں نے حصہ نہیں لیااورایک دفعہ پھرریاستی اداروں کوایک موقع ہاتھ آگیاانہوں نے اپنے ہمنواؤں کوبہ نام بلوچ منتخب کرواکراسمبلی تک پہنچادیااورانہی لوگوں نے بلوچوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات میں سرکارکاساتھ دیا۔

ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے حصہ دارآج تک بلوچ نمائندگی کے دعویدارہیں۔بلوچوں نے تیسری غلطی 2008میں کی جس میں بلوچ قوم دوست پارٹیوں نے 2008کے انتخابات میں حصہ نہیں لیااورسرکاری اداروں نے انہی لوگوں کومنتخب کیاجواندھے اورگونگے تھے جنہوں نے بلوچوں کے خلاف ہونے والے ظلم پرکوئی آوازنہیں اٹھائی اورآنکھیں بندکرلیں۔

بلوچ قوم دوست پارٹیوں اورقیادت کی دانشمندی سے عاری فیصلوں کی وجہ سے مقتدر قوتوں کوایک حربہ ہاتھ لگ چکاتھااورانہوں نے 2013کے انتخابات میں بلوچ دوست پارٹیوں کے امیدواروں کی کامیابی کی راہیں مسدودکردیں اوراسٹیمپنگ کرتے ہوئے اپنے وفاداروں کواسمبلیوں تک پہنچادیا۔ 

اس غلطی میں نوجوان بلوچ جانثاربھی شامل ہوئے کیوں کہ ان کے نام پرلوگوں کوخوف میں مبتلاکیاگیا،جبکہ پورے بلوچستان میں انتخابات زوروشور سے منعقدکئے گئے سوائے آواران ، پنجگوراورکیچ کے اضلاع کے جہاں سرکاراوراس کی پالیسیوں کی حامیوں نے بلوچوں کوڈرادھمکاکرپولنگ اسٹیشن تک پہنچنے نہیں دیااوراس کانتیجہ یہ نکلاکہ ان اضلاع سے بلوچ نمائندوں کے بجائے بلوچ دشمن لوگ اسمبلیوں تک پہنچے اورانہوں نے بلوچ کے قومی وجوداوراس کی سرزمین کے خلاف ہونے والے اقدامات میں سرکارکاساتھ دیا۔

لیکن اب اس عمل کویہیں ختم ہوجاناچاہیے ،اس غلطی کوباربارنہ دہرایاجاناچاہیے ۔ بلوچوں کو پارلیمنٹ میں سرکاری ہمنواؤں کے بجائے بلوچ دوست نمائندگان کوووٹ دیکرپارلیمنٹ تک پہنچاناچاہیے تاکہ وہ بلوچ کی نسل کُشی اوراس کے وسائل وسرزمین کی خریدوفروخت میں حصہ دارنہ بنیں ۔

25جولائی 2018کوہونے والے انتخابات میں سرداراخترمینگل کی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی حصہ لے رہی ہے ۔ اس جماعت کی جانب سے کیچ کی قومی اسمبلی کی نشست پربلوچ دانشور،مدبراورماہرزبان ولسانیات میرجان محمددشتی انتخاب لڑرہے ہیں۔ بلوچ اوربلوچستان کے لئے دشتی صاحب کی خدمات سے کوئی ذی شعور انکارنہیں کرسکتا ، بلوچی زبان کی ترقی وترویج میں ان کی خدمات روزروشن کی طرح عیاں ہیں ان کی مڑاہداری ، مہمان نوازی ، ایمانداری اوروطن دوستی بلوچ تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہے ۔

جان محمددشتی اوران کاخاندان گزشتہ چھ دہائیوں سے بلوچ قوم دوست سیاست سے جڑا ہے۔ جان محمددشتی اسی جرم کی پاداش میں گولیوں کاہدف بنائے گئے ۔یہ بات عجیب ہے کہ گزشتہ چندمہینوں سے سرکاری پارٹیوں کے چندافراداورکچھ ایسے لوگ جن کاکردارمشکوک ہے انہوں نے جان محمددشتی کے خلاف ایک مہم شروع کررکھی ہے کہ جان محمددشتی انتخابات میں حصہ نہ لیں،وہ اسمبلی میں پہنچنے کے باوجودکچھ بھی نہیں کرپائیں گے
بلوچوں پرہونے والے مظالم اوروسائل کی لوٹ مار سے وہ ریاست اورحکومت کونہیں روک سکتے لہٰذاانہیں اپنافیصلہ بدل دیناچاہیے ۔ جان محمددشتی ایک دانشوراورادیب ہیں لہٰذاانہیں عملی طورپرسیاست میں حصہ نہیں لیناچاہیے ۔ 

دلیل اورمنطق سے عاری یہ مہم نومہینے قبل سرکاری حمایت یافتہ پارٹیوں نے اس وقت شروع کی تھی جب جناب جان محمددشتی نے بلوچ دانشوروں، ادیبوں اورقوم دوستی کی فکررکھنے والے اسکالرزکے سامنے یہ سوال رکھاتھاکہ بلوچ تاریخ کے ایک مشکل دورسے گزررہے ہیں اوراس کٹھن مرحلے کوسرکرنے کے لئے کیاکیاجائے ۔

بلوچ مفادات کے خلاف کمربستہ ،سرکاری کیمپ سے وابستہ لوگ برملاکہتے ہیں کہ ادیب ، دانشور، عالم ، قوم دوست اوروطن پرستوں کوچاہیے کہ وہ عملی سیاست میں حصہ نہ لیں، اوراپنے عوام سے کٹ کرکنارہ کشی کی زندگی گزاریں،اپنے لوگوں کے دکھ دردسے لاتعلق رہیں ، ان کے بہترمستقبل کے لئے کی جانے والی جدوجہدسے کوئی سروکارنہ رکھیں،یہ باتیں بلوچوں کے خلاف ہونے والی صف آراء قوتوں کے لئے سودمندہوسکتی ہیں بلوچوں کے لئے نہیں۔

ان لوگوں کاخیال ہے کہ حقیقی بلوچ دانشوروہ ہیں جوبلوچ کی حمایت سے دست بردارہوں، اس دلیل کے حامل لوگوں کوچاہیے کہ وہ تاریخ کامطالعہ کریں عظیم فلاسفرافلاطون نے سیاست کے اصول وقوانین پرکتابیں لکھی ہیں اوراس نے عملی سیاست میں حصہ بھی لیا، برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل، امریکی صدرابراہام لنکن ، معروف فلاسفربرٹرینڈرسل ، معروف شاعرپابلونروداجوکہ ایک عظیم شاعر(نوبل انعام یافتہ )وہ ایک عملی سیاست دان تھا۔

ناول ’’ماں ‘‘ کے خالق روس کے معروف ادیب میکسم گورکی جواپنے دورکاایک عظیم ادیب تھاوہ عملی طورسیاست میں متحرک بھی تھا۔ معروف تاریخ دان وہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہرلعل نہرو(اس کی معروف کتاب:the glipmses of world history)،روس کے ولادمیرایلیچ اولیانوف المعروف لینن یاجدیدچین کے بانی ماؤتنگ ایک فلاسفراوردانشورتھے ۔علاوہ ازیں اگرنام شمارکئے جائیں توبلوچستان کی حق خودارادیت کاپہلاجہدکار، سیاسی تحریک کے سرخیل یوسف عزیزمگسی ، اورعبدالعزیزکُردادیب اورلکھاری تھے ۔ 

لیکن بلوچستان میں ظلم و جبرکے خلاف سیاسی میدان میں بھی سرگرم رہے ہیں۔ بابوکریم شورش ، شیرمحمدمری ، میرگل خان نصیر ، میرغوث بخش بزنجو، سردارعطااللہ مینگل ، نواب خیربخش مری اوراکبربگٹی نے بلوچوں کی حق خودارادیت کے لئے جدوجہدکی کیاانہیںیہی تنبیہ کی جانی چاہیے تھی کہ وہ سیاست نہ کریں اوربلوچوں سے لاتعلق رہیں۔

دانشوروہ شخص ہرگزنہیں کہلاسکتاجوایک یوٹوپیا(خیالی دنیا)تخلیق کرے اوراسی میں زندہ ہو۔عالم وہ نہیں جوبلوچ پرہونے والے جرائم سے لاتعلق ہو۔اُس شاعرکو ہرگزشاعر نہیں کہا جا سکتا جوبدی کی قوتوں سے ڈرکرانہیں بَدنہ کہہ سکے ۔ دانشور کوچاہیے کہ وہ قومی حقوق کے لئے محوجدوجہدکاروان سے منسلک ہو،اپنی قوم کے دکھ درداورمسرت میں اس کے ہم دوش رہے ۔

بلوچ قوم کے حقیقی نمائندے اس کے ادیب ، دانشور، عالم اوربامروت قوم دوست اس کے حقیقی ہیروہیں وہ ہرگز نہیں جوسرکارکے ہمنواہیں۔بلوچ دانشوراورادیبوں کوسیاست سے دوررہنے کے مشورے دینے والے بلوچ دوست نہیں۔ لیکن قوم دوست اورزبان دوست جو اپنی قوم کے لئے جان بہ کف ہیں ، اُن کے لئے یہ بات کہ وہ بلوچوں سے دوررہیں،بلوچ سیاست سے دوررہیں،بلوچ مسائل سے دوررہیں نامناسب بات ہے۔ 

اس منطق اوردلیل کو بغیرکسی تفکراورسوچ کے ،ان لوگوں نے اپنالیااورجواپنے آپ کوبلوچ کاخیرخواہ کہتے ہیں،جبکہ ایک مخصوص طبقہ عنادکی وجہ سے شعوری طورپراس پرعمل پیراہے ۔ سرکارکے ہمنوایہی سمجھتے ہیں کہ اگربلوچ دوست نمائندے اسمبلیوں تک پہنچے تووہاں پران کی حیثیت ختم ہوجائیگی اوربلوچ مفادات کا نفع بخش کاروباران کے حق میں فائدہ مندنہیں ہوگا۔ 

بلوچوں کے سیاسی دانشمندوں نے فیصلہ کیاہے کہ بلوچ علاقوں کے تمام حلقوں کی نشستوں پربلوچ قوم دوست نمائندے کھڑے کئے جائیں گے ۔اوروہ اس عمل کے خلاف ڈٹ جائینگے کہ سرکاری کاسہ لیس ٹھپہ ماری کریں اوربلوچوں سے ان کی نمائندگی کاحق طاقت کے زورپرچھین لیں۔

بلوچ قوم دوست جانتے ہیں کہ وہ ان نادیدہ قوتوں کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکتے جوبلوچوں کااستحصال کرتے ہیں لیکن وہ اس عمل میں حصہ دارنہیں بنیں گے۔ بلوچوں کے بدخواہ یہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان کی پارلیمنٹ یاپاکستان کی پارلیمنٹ میں بدکردار، ڈرگ مافیاکے افراد، چوراُچکے،قاتل پہنچ جائیں۔

کیاایسے افرادکابلوچوں کے نمائندوں کے طور پراسمبلیوں میں جانابلوچوں کے لئے باعث فخرہے یاباعث شرمندگی ہے یہ فیصلہ بلوچ عوام کوکرناہے۔ وہ بلوچ وسائل کو ہڑپ کرنے میں ظالم کاساتھ نہیں دیں گے ۔ وہ کرپشن اوربلوچ ملکیت کی سوداگری میں شریک نہیں ہونگے ۔ وہ بلوچوں اوران کے آنے والی نسلوں کے خوشحال مستقبل کے لئے بلوچ کی حمایت کرینگے ۔

یہ دلیل کوتاہ ذہنی اورکم دانش مندی کاثبوت ہے کہ اسمبلیوں میں بلوچ وفادارکے بجائے سرکارپرست داغدارکردارکاحامل شخص بزورِ بازوبلوچ کانمائندہ بناکربھیجاجائے ۔

ان کٹھن حالات میں بلوچوں کی نگاہوں کامرکزسرداراخترجان مینگل اوران کے ہم کاروان میرجان محمددشتی ہیں،یہی وہ اشخاص ہیں جوبلوچ رہنمائی کے معیارپرپورا اُترتے ہیں۔

بلوچ دعاگوہیں کہ وہ کامیاب ہوں تاکہ بلوچ مفادات کومحفوظ بنانے میں اپناکرداراداکریں،کیوں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی اوراس کی قیادت سے بلوچوں کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ ان نمائندوں کوووٹ دینگے جواُن کے خیال میں ان کے حقیقی نمائندے اوربامروت انسان اورصاف کردارکے مالک ہیں جواسمبلیوں میں بلوچ مفادات کے لئے آوازبلندکریں گے اوربلوچ استحصال کے خلاف ڈٹ جائیں گے ۔


(مضمون نگار:بلوچی زبان کے لکھاری اورریڈیوپاکستان تربت میں بلوچی پروگراموں کے کمپیئرہیں) ای میل ایڈریس:shugrullahbaloch@gmail.com