|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2018

کوئٹہ: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں میں حقوق نہ ملنے کے تاثر پر شرمندگی ہے یہاں کے لوگوں کو اتنے ہی حقوق حاصل ہیں جتنے ملک کے کسی بھی دوسرے صوبے کے لوگوں کو۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ صوبے کے عوام کے حقوق کی محافظ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بلوچستان میں چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس باقی صوبوں سے آتے ہیں۔ بلوچستان میں باقی صوبوں کی طرح خود مختاری رائج اور سیلف گورننس کا حقیقی تاثر بننا چاہیے۔

ماضی میں کیا قدم اٹھائے گئے کیا احتساب نہیں ہونا چاہیے۔ اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرنا ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔اب وقت ہے کہ ملک کو لوٹایا جائے ، قوم کو آگے آنا چاہیے۔ اداروں کے حوالے سے کسی کا رہنا یا نہ رہنا معنی نہیں رکھتا اور میں رہوں نہ رہوں یہ ادارہ برقرار ہے جب کہ میرے بعد آنے والے مجھ سے زیادہ بہتر ہیں۔ 

یہ بات انہوں نے بلوچستان ہائیکورٹ کی عمارت میں بلوچستان بار کونسل کے زیراہتمام منعقدہ ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس پر سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ احمد گلزار ، جسٹس مشیر عالم ، جسٹس مظہر میاں خیل، چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس طاہرہ صفدر ، بلوچستان ہائیکورٹ کے جج صاحبان، سابق چیف جسٹس بلوچستان محمد نور مسکانزئی، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی، پاکستان بار کونسل کے نائب صدر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ، سینئر وکلاء اور ماتحت عدالت کے جج صاحبان بھی موجود تھے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈیم ہماری بقا اور آنے والی نسلوں کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے ، خدا کا واسطہ اس ملک سے محبت کریں، ایک سال اس ملک کو دیں اور پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے اور ہم آنے والے بچوں کے لیے کتنی نایاب وراثت چھوڑ کر جائیں گے۔ 

چیف جسٹس نے کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی پسماندگی افسوسناک ہے۔ یہ واقعی ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ اس صوبے جس نے بے انتہاء ملک سے بے انتہاء پیار کیا اور پاکستان بنانے میں کردار ادا کیا۔ آج بھی یہ صوبہ پاکستان پر نچھاور ہوتا ہے۔ 

بہت ساری معدنیات اس صوبے سے مل رہی ہیں اس کے باوجود اگر یہاں تاثر مل رہا ہے کہ انہیں حقوق نہیں مل رہے یا حقوق نہیں دیئے گئے تو ذاتی طور پر یہ میرے لئے قابل شرمندگی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں جب بھی اس صوبے میں آیا ہوں میں نے یہاں سے پیار ہی پایا ہے۔ 

بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ اس صوبے میں چیف سیکریٹری یا آئی جی پولیس پنجاب ،کراچی یا کسی اور صوبے سے آتا ہے۔ سابق چیف جسٹس بلوچستان سے بھی کئی مرتبہ اس موضوع پر گفتگو ہوئی۔یہ چونکہ انتظامی مسئلہ ہے ہم اسے اجاگر کرتے رہے ہیں۔ 

عدالت میں بھی اس بارے میں بہت ساری آبزوریشن دی ہے کہ خود مختاری ہونی چاہیے اور سیلف گورننس کا حقیقی تصور بلوچستان میں بھی اسی طرح رائج ہونا چاہیے جیسا کہ وہ دیگر صوبوں میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد ہم نے تین ماہ قبل ہی بڑھادی ہے۔ 

بلوچستان ہائیکورٹ کی چیف جسٹس محترمہ طاہرہ صفدر نے جس دن حلف اٹھایا تھا اسی دن ان سے کہا تھا کہ آپ عدالت کی خالی آسامیوں کو آسامیاں پر کرنے کیلئے اقدامات کریں اور آپ اپنے مخصوص حالات دیکھتے ہوئے حقیقی نمائندگی کیلئے بار کی تجاویز سے نام بھیجیں مگر انہوں نے ابھی تک نام نہیں بھیجے۔ کل رات بھی ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ کچھ بنچز کا ایشو ہے جسے حل کرکے وہ جلد نام بھیج دیں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ میں رہو ں نہ رہوں یہ ادارہ برقرار ہے۔اداروں میں کسی کا رہنا نہ رہنا معنی نہیں رکھتا۔ میرے بعد آنیوالے بہت بڑے جید لوگ ہیں وہ ان معاملات اور ادارہ جاتی مسائل کو حل کریں کرتے رہیں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ میں ججز کی کی کمی پوری کرینگے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار میں بلوچستان کی نمائندگی کا مسئلہ چار ماہ سے زیر التواء ہے۔ ہم نے نمائندگی بڑھانے کیلئے لکھ دیا تھا۔ ہم نے تعداد سات سے بڑھا کر دس کردی ہے۔ نگراں وزیراعظم سے بھی اس معاملے پر بات کی تھی ۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ معاملہ آنیوالی حکومت پر چھوڑ دیجیے آج صبح ہی سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے وزیراعظم سیکریٹریٹ سے بات کی ہے کہ یہ تعداد کا نوٹیفکیشن کیوں نہیں ہورہا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے بھی اطہر من اللہ سے سب سے پہلی بات کی ہے کہ بلوچستان سے لوگ لینے ہیں۔ بلوچستان کی نمائندگی ناگزیر ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں تعداد بھی سب صوبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ 

اسلام آباد کی اپنی بھی نمائندگی مناسب ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ سے پوچھا ہے کہ کتنے ٹربیونل ہیں جو فعال نہیں ہیں۔ کیونکہ میں بہت دیر سے ٹڑبیونل کے بارے میں سماعتیں کررہا ہوں۔ بلوچستان ہائیکورٹ کی چیف جسٹس نے بتایا کہ کوئی ٹربیونل ایسا نہیں ہے کہ جو غیر فعال ہے۔ ٹربیونل میں بلوچستان کی نمائندگی کیلئے وکلاء نمائندوں نے میرے تقاضے کے باوجود کبھی فہرست پیش نہیں کی۔ کسی موضوع اور موقع پر شکایت کرنا اپنی جگہ پر ہے۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ میں عملی آدمی ہوں اور کسی معاملے کو التواء میں رکھنے کا قائل نہیں۔ وکلاء کوکہتا ہوں کہ وہ آئے اور فوری طور پر اپنا کام کرائے۔بلوچستان کے وکلاء نے ایسی کوئی کوشش کی اور اس میں انہیں ناکام ہوئی میں اس کا گنہگار ہوں گا۔ 

مجھے سپریم کورٹ اسلام آباد رجسٹری کیلئے بلوچستان کے لوگ درکار ہیں کسی نے آج تک نام نہیں دیئے۔ میں بلوچستان کے ہر دوست سے یہی کہتا آرہا ہوں کہ آپ نام دے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب کوئٹہ میں کل وقتی سپریم کورٹ رجسٹری کام شروع کررہی ہے جہاں تمام عملہ بلوچستان کے لوگوں پر مشتمل ہوگا۔ 

بلوچستان کے لوگ اسلام آباد میں بھی ہونے چاہیے سپریم کورٹ بار اور سینئر وکلاء فہرست لاکر دیں ہم انہیں وہاں ایک ہفتے میں تعینات کردیں گے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ انگلینڈ کے بعد بلوچستان میں ڈیم فنڈز کیلئے ایسا پیار اور محبت ملی ہے۔ 

کوئٹہ کے ایک تاجر نے پچاس لاکھ روپے اور سینئر وکیل نے دو لاکھ روپے دیئے۔ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ اور ججز نے بھی ڈیم فنڈز کیلئے چیک دیا ہے۔ انہوں نے کہ اکہ ڈیم ہمارے لئے ناگریز ہوگیا ہے ڈیمز بنانا ہمارا اور ہمارے بچوں کی بقاء کا مسئلہ بن گیا ہے۔ 

ہمیشہ کہتا ہوں کہ خدا کا واسطہ ہے اس ملک سے محبت کریں۔ ایک سال کی اپنی بہترین کاوشیں اس ملک کو دیں آپ اس کے نتائج دیکھیں گے کہ کتنی بہتریں آئے گی اس کے ذریعے آپ اپنی آئندہ آنے والی نسل کیلئے نایاب قسم کا ترکہ چھوڑ کر جائیں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ اپنی اصلاح کرنا ہماری اپنی ذمہ داری بنتی ہے۔ اپنے گریبان میں جھانک کر ہم جان سکتے ہیں کہ ہم کن کوتاہیوں کا شکار ہیں اور ان کوتاہیوں کو دور کرسکتے ہیں۔ ہم نے یہ کسی اور کیلئے نہیں بلکہ اپنی آئندہ والی نسلوں کیلئے کرنا ہے۔ ہم تو اپنا وقت گزارچکے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ ملک کو کچھ لوٹایا جائے۔ 

یہ وقت تقاضا کررہا ہے کہ ہم اس معاشرے اور قوم کیلئے اپنی اپنی شراکت داری دیں۔ ہم قائداعظم کے اس ملک سے محبت اور پیار کریں جو بہت بڑا احسان ہے۔ کیا اس ملک کی ہم نے اس طرح قدر کی ہے جس طرح ضرورت ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم چالیس سال بعد سوچ رہے ہیں کہ آئندہ سات سالوں میں پاکستان میں پانی نایاب ہوجائیگا۔ کیا یہ لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ بلوچستان میں پانی کی سطح کس خطرناک حد تک گررہی ہے لیکن کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ 

کیا ان لوگوں کا کسی نے احتساب نہیں کرنا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان سے محبت سب سے اہم ہے اگر ایک دفعہ ہم اس محبت کو قائم کرسکے تو ترقی کی راہیں بہت آسان ہیں اورانشاء اللہ پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سرفہرست ہوگا۔ 

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وکلاء کو اوتھ کمشنر نہیں بلکہ ٹاپ کے ججز اور وکلاء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اعلیٰ مقام تک پہنچنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ وکلاء وکالت بھی کررہے ہیں اور ملازمت بھی کررہے ہیں ان کے خلاف بار کے قوانین کے مطابق بلوچستان ہائیکورٹ کارروائی کریں۔ 

انہوں نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا اہم حصہ ہے۔ چیف جسٹس اور پورا سپریم کورٹ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ بلوچستان کے لوگ بھی وہی بنیادی حقوق رکھتے ہیں جو پاکستان کے کسی بھی دوسرے صوبے کے عوام کو حاصل ہیں۔ 

یہ آپ کا حق ہے کہ آپ اپنے تمام حقوق حاصل کریں اوریہ اعلیٰ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ آپ کے صوبے کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔ اس موقع پر پاکستان بار کونسل کے نائب صدر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچستان کے ساتھ ماضی میں ہمیشہ امتیازی سلوک کیا گیا جس کی وجہ سے صوبہ پسماندگی کا شکار رہا۔ 

پاکستان بار کونسل کے نائب صدر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے کہا کہ بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کیلئے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیا جائے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچستان کو کوٹے کے مطابق نمائندگی دی جائے۔ لورالائی اور خضدار میں ہائیکورٹ کے بنچز قائم کئے جائیں۔ انہوں نے وکلاء کے مسائل سے متعلق تجاویز بھی پیش کیں۔