|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2018

کوئٹہ: سینٹ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ورکس اینڈ ہاؤسنگ کے چیئرمین سینیٹر کبیراحمد محمد شہی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں غربت، بے روزگاری، امن و امان سے بڑھ کر زیادہ مسئلہ خشک سالی اور پینے کے پانی کی عدم دستیابی ہے جہاں بلوچستان پہلے سے کم ترقی یافتہ اور مسائل سے دوچار ہے اب بارشیں نہ ہونے سے زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے گرنا مستقبل میں کافی مشکلات پیدا کرے گا۔ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ 

یہ بات انہوں نے سینٹ کمیٹی برائے ہاؤسنگ کے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔تقریب میں سینیٹر سردار یعقوب ناصر، سینیٹر سردار شفیق ترین، سینیٹر مرزا محمد آفریدی، سینیٹر برہمن خان تنگی، سینیٹر انوار لال دین، سینیٹر بریگیڈیئر(ر) جوہن کینتھ وہم نے شرکت کی۔ 

سینٹ اسٹینڈنگ کمیٹی کو پاک پی ڈبلیو ڈی، واسا، نیسپاک، واٹر بورڈ منیجمنٹ اور دیگر حکام نے اپنے اپنے محکموں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی اور سینٹ کمیٹی کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا اور سفارشات پیش کئے۔ اس موقع پرچیئرمین کبیراحمد محمد شہی نے کہا کہ کوئٹہ میں عوام کی سہولت کے لئے شروع کئے گئے ہاؤسنگ اسکیم کچلاک، مغربی بائی پاس ، ایرڈزون تاحال سردمہری کا شکار ہے۔ 

سرکاری آفیسران کی عدم دلچسپی سے اس عظیم منصوبے کو جہاں بہت پہلے پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا لیکن اس پر تاحال کوئی پیش رفت نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ محکمے تھوڑا سا بھی توجہ دیتے تو آج یہ منصوبے مکمل ہوچکے ہوتے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگ پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز کو کیسے کم مدت میں کامیاب بنادیتے ہیں لیکن سرکاری قیمتی زمینوں پر عدم توجہ کی وجہ سے سالوں سال ایسے بے کار پڑے ہیں۔ 

انہوں نے سختی سے حکام کو ہدایت دی کہ آئندہ اجلاس میں فزیبلٹی رپورٹ تیار کرکے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ واسا، واٹر بورڈ منیجمنٹ والے بھی آپس میں کوآرڈینیشن کو مضبوط بنائیں۔ ماضی میں کوئٹہ میں سیف واٹر پروجیکٹ کے 8 ارب روپے ناقص پالیسی کی وجہ سے ضائع ہوگئے اور خطیر رقم خرچ ہونے کے باوجود عوام کو ثمرات نہیں ملے۔ 

انہوں نے کہا کہ آئندہ ایسا نہیں ہونے دینگے۔ ادھر جس بھی ادارے سے پوچھتے ہیں وہ ذمہ داری دوسرے کے کندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ افسران اس کا سختی سے نوٹس لیں اور کوئٹہ کے لئے ہنگامی بنیادوں پر پانی کی فراہمی کے لئے اقدامات اٹھائیں۔ 

سینیٹر کبیر احمد محمد شہی نے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے آئندہ سینٹ اجلاس میں ان منصوبوں کی تکمیل کے سفارشات مرتب کی جائے گی۔ سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے کہا کہ بلوچستان میں تمام سرکاری محکموں میں بدانتظامی اور بدعنوانی کے خاتمے کے لئے مرکزی حکومت کو مثبت اقدامات اٹھانے چاہئے۔ 

اس موقع پر پاک پی ڈبلیو ڈی کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 2008ء میں حکومت بلوچستان نے فری آف کاسٹ وفاقی حکومت کو ہاؤسنگ سکیم کے لئے کچلاک بائی پاس پر 86 ایکڑ زمین فراہم کی ہے جس میں چار کیٹیگریز رکھے گئے ہیں اور ساتھ کوٹہ سسٹم بھی رکھا ہے ۔

جس میں وفاقی و صوبائی ملازمین کیلئے پچاس فیصد، جنرل پبلک کے لئے چالیس فیصد اور بقایا دس فیصد PHA کے لئے مختص کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ مغربی بائی پاس ایئرڈ زون میں 18 ایکڑ زمین پر عدالت میں کیس چلنے کے باعث تاحال کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔ 

اس موقع پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر کبیراحمد محمد شہی نے کہا کہ چیف انجینئر پاک پی ڈبلیو ڈی جلد از جلد ان منصوبوں کے متعلق اپنی سفارشات بناکرکمیٹی کے حوالے کردیں تاکہ آئندہ اجلاس میں اس پر بحث کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیڈرل لارجز کی بلڈنگ کافی پرانی اور زبوں حالی کا شکار ہے اس کی بھی سفارشات بناکر بھیج دیں۔ 

اسٹیٹ لائف کے حکام نے کمیٹی کو کہا کہ وفاقی ملازمین کے لئے بنائی گئی کالونی پر کچھ سرکاری اداروں نے قبضہ جما رکھا ہے کئی بار نوٹسز کے باوجود خالی نہیں کررہے جس کی وجہ سے وفاقی ملازمین کو سرکاری گھر الاٹ نہیں ہوسکے ہیں۔ 

چیئرمین کمیٹی کبیر احمد محمد شہی نے کہا کہ سینٹ کے ذریعے وزیراعلیٰ بلوچستان، چیف سیکرٹری بلوچستان اور سیکرٹری داخلہ کو لیٹرلکھ دیں گے کہ سرکاری زمینوں پر قبضہ ختم کراکے محکمہ ہاؤسنگ کو واپس کیا جائے۔ آخر میں سینٹ کمیٹی کے ممبران نے فیڈرل لارجز، کچلاک ہاؤسنگ سکیم کا دورہ کیا اور کہا کہ اس پر وزیر ہاؤسنگ سے ملاقات کروں گا تاکہ عوام کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہاؤسنگ کے منصوبے پر بروقت کام کا اجراء ہوسکے۔