|

وقتِ اشاعت :   December 8 – 2019

کوئٹہ+اندرون بلوچستان : بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیراہتمام آواران میں بلوچ خواتین کی گرفتاری کیخلاف کوئٹہ،ڈیرہ اللہ یار، قلات،دالبندین، نوکنڈی، بسیمہ،پنجگور اور قلات سمیت دیگر علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور ریلیوں کا انعقاد کیاگیا۔

مظاہرین کاگرفتار خواتین کی فوری رہائی کا مطالبہ، تفصیلات کے مطابقبلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ملک ولی کاکڑ، رکن بلوچستان اسمبلی احمد نواز بلوچ، خاتون ایم پی اے زینت شاہوانی، بی ایس او کے مرکزی جنرل سیکرٹری منیر جالب ودیگر نے کہا ہے کہ اگر بلو چستان کے ضلع آواران سے گرفتار کی گئی خواتین کو رہا نہیں کیا گیا تو احتجاجی تحریک شروع کریں گے جس میں دھرنا، احتجاجی مظاہرے، شاہراہوں کی بندش، شٹرڈان ہڑتال و دیگر شامل ہیں۔

صوبائی حکومت نے یونیورسٹی بلوچستان کے واقعہ کے بعد جس طرح جامعہ کے وائس چانسلر، کنٹرولر، رجسٹرار و دیگر کی پشت پناہی کی اسی طرح کا کردار آج خواتین کے معاملے پر ادا کیا جا رہا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، پہلے نوجوانوں اور بوڑھوں کو اٹھا یا جاتا تھا جبکہ اب خواتین کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کو بلوچستان نیشنل پارٹی کی مرکزی کال پر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر بی این پی کے اراکین صوبائی اسمبلی ملک نصیر شاہوانی، شکیلہ نوید دہوار، اختر حسین لانگو کے علاوہ غلام نبی مری، ساجد ترین، جاوید بلوچ، شفقت لانگو، جمال لانگو، مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسی بلوچ و دیگر بھی موجود تھے۔ مظاہرے میں بی این پی کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔

بلوچوں کوتنگ کرنے کا سلسلہ 1948سے شروع تھا مگر 2004سے اس میں مزید شدت آئی اس لئے آج صوبے بھر میں بلوچ عوام سراپا احتجاج ہیں انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کی جانب سے خواتین پردہشت گردی کے الزام لگانا قابل مذمت ہیبلکہ وہ صرف اور صرف اپنے مراعات کے خاطر جھوٹی گواہی دے رہا ہے۔ انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ جب پوری دنیا میں خواتین کو برابری، انہیں عزت اور احترام دیا جارہا ہے مگر یہاں صورتحال یکسر مختلف ہے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ بلوچ خواتین بھی دہشت گرداور دہشت گردوں کی آلہ کار ہیں۔

ان آواران کی خواتین کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ صرف بلوچ خواتین کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے بلوچستان کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد ہم دس سال پیچھے چلے گئے آج ایک سازش کے تحت اسی طرح کے حالات پیدا کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان بے گناہ خواتین کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا تو ہم احتجاج تحریک چلانے پر مجبور ہوں گے جس میں دھرنا، مظاہرے، شاہراہوں کو بلاک کرنا اور شٹرڈان ہڑتال شامل ہیں۔

ڈیرہ اللہ یار میں بی این پی کے کارکنوں نے احتجاجی ریلی نکال کر مظاہرہ کیا بی این پی مینگل کے کارکنوں نے سینٹرل کمیٹی کے ممبر میر نذیر احمد کھوسہ کی قیادت میں بی این پی کے ضلعی سیکریٹریٹ سے ایک پر امن احتجاجی ریلی نکالی اور شہر کے مختلف راستوں سے مارچ کرتے ہوئے مرکزی مزدور چوک پر پہنچ کر دھرنا دیا بی این پی کے کارکنوں کے ہاتھوں میں جھنڈے اور بینرز تھے۔

احتجاجی دھرنے سے بی این پی کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر میر نذیر احمد کھوسہ ضلعی صدر بابو دھنی بخش مینگل ضلعی رہنماؤں احسان احمد کھوسہ عزیز آسی عالم بلوچ ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آواران میں بلوچ خواتین کی گرفتاری اور ان کو دہشتگرد قرار دینے کا عمل بلوچ تہذیب و تمدن پر حملہ ہے جس سے بلوچ قوم میں شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ قلات میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام آواران میں خواتین کی گرفتاری کے خلاف پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

مظاہرین نے صوبائی حکومت اور آواران انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی مظاہرے کیا قیادت بی این پی کے ضلعی سیکریٹری جنرل احمد نواز بلوچ نے کی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کے ضلعی سیکریٹری جنرل احمد نواز بلوچ سیکریٹری اطلاعات عبدالعلیم مینگل جوائنٹ سیکریٹری عبدالمنان دہوار کبیر احمد عبدالغفور لاشاری وحید احمد تحصیل صدر میر حفیظ مینگل اور دیگر بلوچستان میں ماورائے قانون گرفتاریوں کی شدید الفاظ میر مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل بلوچستان میں نوجوانو ں کو گرفتار کرکے انہیں غائب کیا جاتا تھا مگر اب خواتین کو اغوا کیا جارہا ہے یہ ہمارے بلوچ پشتون روایات اور اسلامی اصولوں کے بھی منافی ہے۔

اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہیں دیگر شہروں کی طرح دالبندین اور نوکنڈی میں بھی پارٹی ورکروں نے ریلیاں نکالی اور بازار میں گشت کرنے کے دوران نعرے بازی کی دالبندین میں ریلی کی قیادت ضلعی سینئر نائب صدر ملک جاوید محمد حسنی۔تحصیل صدر میر یار محمد مینگل نے کی شرکاء بازار کا گشت کرنے کے بعد پریس کلب کے سامنے جمع ہوگئے۔

مظاہرین سے ضلع چاغی کے سینئر نائب صدر ملک جاوید محمد حسنی، تحصیل صدر میر یار محمد مینگل، ثناء اللہ بلوچ، مصطفی کمال ریکی، اقبال ریکی محمد بخش بلوچ اور دیگر نے خطاب کیا جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی نوکنڈی کے زیر اہتمام آواران میں بلوچ خواتین کی گرفتاری تشدد اور بوگس مقدمات کے خلاف پریس کلب نوکنڈی کے سامنے احتجاجی مظاہرہ احتجای مظاہرے سے بلوچستان نیشنل پارٹی تحصیل نوکنڈی کے صدر کاظم بلوچ، ضلعی ہیومن رائٹس سیکرٹری محمد جان حسن زئی و دیگر کا خطاب بلوچ خواتین کی گرفتاری اور عدم رہائی کی شدید الفاظ میں مذمت ریاستی تشدد ظلم و جبر سے کسی بھی قوم کو بھی نہیں جھکایا جاسکتا بلوچستان لازوال قربانیوں کی سرزمین ہے۔

بسیمہ میں بھی احتجاجی مظاہر ے کیا گیا مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر آواران سے بلوچ خواتین کی گرفتاری کی مذمت، موجودہ حکومت مخالف نعرے درج تھے مظاہرین نے حکومت کے خلاف شدید نعرے لگائے مظاہرین سے بی این واشک کے صدر میر سیف الرحمن عیسی زئی، میر بالاچ خان رودینی اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ایک بار پھر حالات خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے آواران سے بلوچ خواتین کی گرفتاری ہمارے روایات پر براہ راست حملہ ہے۔

پنجگور میں بی این پی کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری میرنذیر احمد بلوچ ضلعی کفایت اللہ بلوچ کی قیادت میں احتجاجی ریلی نکالی گئی جو بی این پی کے دفتر سے شروع ہوئی اور پریس کلب کے سامنے پہنچی احتجاجی مظاہریں نے بینرز اور پلے کارڑ اٹھا رکھے تھے جن پر خواتین کو رہا کرنے کے نعرے درج تھے۔

اس دوران مظاہرین سے بی این پی کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری میر نذیر احمد بلوچ ضلعی صدر کفایت اللہ بلوچ تحصیل صدر محمدجان بلوچ راشد لطیف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بلوچ نوجوانوں کو اغوا اور گرفتار کئے گئے تھے اب بلوچ خواتیں کو اغوا اور گرفتار کیا جارہا ہے مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اسمبلی کے اندر موجود نام ونہاد عوامی نمائندوں کی خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے منہ پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ پر علاقے کے عوامی نمائندے آواز بلند کرنا تھا مگر وہ خود بھی لاپتہ ہے۔